معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 71
عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يَأْتِيهِ مَلَكَانِ فَيُجْلِسَانِهِ فَيَقُولَانِ لَهُ: مَنْ رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: رَبِّيَ اللَّهُ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا دِينُكَ؟ فَيَقُولُ: دِينِيَ الْإِسْلَامُ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ؟ " قَالَ: " فَيَقُولُ: هُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَقُولَانِ: وَمَا يُدْرِيكَ؟ فَيَقُولُ: قَرَأْتُ كِتَابَ اللَّهِ فَآمَنْتُ بِهِ وَصَدَّقْتُ «زَادَ فِي حَدِيثِ جَرِيرٍ» فَذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ {يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا} الْآيَةُ قَالَ: " فَيُنَادِي مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ: أَنْ قَدْ صَدَقَ عَبْدِي، فَأَفْرِشُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى الْجَنَّةِ، وَأَلْبِسُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ " قَالَ: «فَيَأْتِيهِ مِنْ رَوْحِهَا وَطِيبِهَا» قَالَ: «وَيُفْتَحُ لَهُ فِيهَا مَدَّ بَصَرِهِ» قَالَ: «وَإِنَّ الْكَافِرَ» فَذَكَرَ مَوْتَهُ قَالَ: " وَتُعَادُ رُوحُهُ فِي جَسَدِهِ، وَيَأْتِيهِ مَلَكَانِ فَيُجْلِسَانِهِ فَيَقُولَانِ: لَهُ مَنْ رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: هَاهْ هَاهْ هَاهْ، لَا أَدْرِي، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا دِينُكَ؟ فَيَقُولُ: هَاهْ هَاهْ، لَا أَدْرِي، فَيَقُولَانِ: مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ؟ فَيَقُولُ: هَاهْ هَاهْ، لَا أَدْرِي، فَيُنَادِي مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ: أَنْ كَذَبَ، فَأَفْرِشُوهُ مِنَ النَّارِ، وَأَلْبِسُوهُ مِنَ النَّارِ، وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى النَّارِ " قَالَ: «فَيَأْتِيهِ مِنْ حَرِّهَا وَسَمُومِهَا» قَالَ: «وَيُضَيَّقُ عَلَيْهِ قَبْرُهُ حَتَّى تَخْتَلِفَ فِيهِ أَضْلَاعُهُ» زَادَ فِي حَدِيثِ جَرِيرٍ قَالَ: «ثُمَّ يُقَيَّضُ لَهُ أَعْمَى أَبْكَمُ مَعَهُ مِرْزَبَّةٌ مِنْ حَدِيدٍ لَوْ ضُرِبَ بِهَا جَبَلٌ لَصَارَ تُرَابًا» قَالَ: «فَيَضْرِبُهُ بِهَا ضَرْبَةً يَسْمَعُهَا مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ إِلَّا الثَّقَلَيْنِ فَيَصِيرُ تُرَابًا» قَالَ: «ثُمَّ يُعَادُ فِيهِ الرُّوحُ» (رواه احمد وابو داؤد)
عالم برزخ (عالمِ قبر)
حضرت براء بن عازب سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں، کہ آپ نے (ایک سلسلہ کلام میں مردہ کے سوال و جواب اور عالمِ برزخ یعنی قبر کے ثواب و عذاب کا تذکرہ کرتے ہوئے) فرمایا: (اللہ کا مؤمن بندہ اس دنیا سے منتقل ہو کر جب عالم برزخ میں پہنچتا ہے، یعنی قبر میں دفن کر دیا جاتا ہے تو) اس کے پاس اللہ کے دو فرشتے آتے ہیں، وہ اس کو بٹھاتے ہیں، پھر اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے، پھر پوچھتے ہیں، کہ تیرا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے کہ میرا دین اسلام ہے، پھر پوچھتے ہیں، کہ یہ آدمی جو تمہارے اندر (نبی کی حیثیت سے) کھڑا کیا گیا تھا (یعنی حضرت محمد ﷺ) ان کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ وہ کہتا ہے وہ اللہ کے سچے رسول ہیں، وہ فرشتے کہتے ہیں کہ تمہیں یہ بات کس نے بتلائی؟ (یعنی ان کے رسول ہونے کا علم کس ذریعہ سے ہوا؟) وہ کہتا ہے کہ میں نے اللہ کی کتاب پڑھی (اس نے مجھے بتلایا کہ یہ اللہ کے رسول ہیں) تو میں ایمان لایا، اور میں نے ان کی تصدیق کی (رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ) مؤمن بندہ کا یہی جواب ہے، جس کے متعلق قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: يُثَبِّتُ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو سچی پکی بات (یعنی صحیح عقیدہ اور صحیح جواب) کی برکت سے ثابت رکھے گا، دنیا میں اور آخرت میں۔ یعنی وہ گمراہی سے، اور اس کے نتیجہ میں آنے والے عذاب سے محفوظ رکھے جائیں گے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "مؤمن بندہ فرشتوں کے مذکورہ بالا سوالات کے جب اس طرح ٹھیک ٹھیک جوابات دے دیتا ہے)" تو ایک ندا دینے والا آسمان سے نداس دیتا ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آسمان سے اعلان کرایا جاتا ہے) کہ میرے بندے نے ٹھیک بات کہی، اور صحیح صحیح جوابات دئیے، لہذا اس کے لئے جنت کا فرش کرو، اور جنت کا اس کو لباس پہناؤ اور جنت کی طرف اس کے لئے ایک دروازہ کھول دو، چناں چہ وہ دروازہ کھول دیا جاتا ہے، اور اس سے جنت کی خوشگوار ہوائیں اور خوشبوئیں آتی ہیں، اور جنت میں اس کے لئے منتہائے نظر تک کشادگی کر دی جاتی ہے (یعنی پردے اس طرح اٹھا فئیے جاتے ہیں کہ جہاں تک اس کی نگاہ جائے، وہ جنت کی بہاروں اور اس کے نظاروں سے لذت اور فرحت حاصل کرتا رہے۔) (یہ حال تو رسول اللہ ﷺ نے مرنے والے سچے اہل ایمان کا بیان فرمایا)، اس کے بعد ایمان نہ لانے والے (کافر) کی موت کا ذخر آپ نے کیا، اور فرمایا: (مرنے کے بعد) اس کی روح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے، اور اس کے پاس بھی دو فرشتے اسٓتے ہیں، وہ اس کو بٹھاتے ہین، اور اس سے بھی پوچھتے ہیں، کہ تیرا رب کون ہے؟ وہ (خدا ناشناس) کہتا ہے: "ہائے ہائے میں کچھ نہیں جانتا" پھر فرشتے اس سے پوچھتے ہیں کہ دین تیرا کیا تھا؟ وہ کہتا ہے کہ "ہائے ہائے میں کچھ نہیں جانتا"۔ پھر فرشتے اس سے کہتے ہیں کہ یہ آدمی جو تمہارے اندر (بحیثیت نبی کے) مبعوث ہوا تھا، تمہارا اس کے بارے میں کیا خیال تھا؟ وہ پھر بھی یہی کہتا ہے: "ہائے ہائے میں کچھ نہیں جانتا"۔ (اس سوال و جواب کے بعد) آسمان سے ایک ندا دینے والا اللہ تعالیٰ کی طرف سے پکارتا ہے کہ اس نے جھوٹ کہا (یعنی اس نے فرشتوں کے سوال کے جواب میں اپنا بالکل انجان اور بے جُرم ہونا ظاہر کیا یہ اس نے جھوٹ بولا، کیوں کہ واقعے میں وہ اللہ کی توحید کا، اس کے دین اسلام کا اور اس کے رسول برحق کا منکر تھا) پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے منادی ندا کرے گا کہ اس کے لئے دوزخ کا فرش کرو، اور دوزخ کا اس کو لباس پہناؤ، اور اس کے لئے دوزخ کا ایک دروازہ کھول دو (چناں چہ یہ سب کچب کر دیا جائے گا) رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں، کہ: "(دوزخ کے اس دروازے سے) اس کو برابر دوزخ کی گرمی اور دوزخ کی لپیٹیں اور جلانے جھلسانے والی ہوائیں اس کے پاس آتی رہیں گی اور اس قبر اس پر نہایت تنگ کر دی جائے گی، جس کی وجہ سے (اتنا دباؤ پڑے گا، کہ) اس کے سینے کی پسلیاں ادھر سے ادھر ہو جائیں گی، پھر اس کو عذاب دینے کے لئے ایک ایسا فرشتہ اس پر مسلط کیا جائے گا، جو نہ کچھ دیکھے گا، نہ سنے گا، اس کے پاس لوہے کی ایسی مونگری ہو گی، کہ اگر اس کی ضرب کسی پہاڑ پر لگائی جائے تو وہ بھی مٹی کا ڈھیر ہو جائے، وہ فرشتہ اس مونگری سے اس پر ایک ضرب لگائے گا، جس سے وہ اس طرح چیخے گا، جس کو جن و انس کے علاوہ وہ سب چیزیں سنیں گی، جو مشرق اور مغرب کے درمیان ہیں، اس ضرب سے وہ کاک ہو جائے گا، اس کے بعد اس میں پھر روح ڈالی جائے گی۔ (مسند احمد، ابو داؤد)

تشریح
مرنے کے بعد برزخ (۱)، قیامت، آخرت چند اصولی باتیں ما بعد الموت کے سلسلہ کی حدیثیں پڑھنے اور اُن کے مطالب سمجھنے سے پہلے چند اصولی باتیں ذہن نشین کر لینی چاہئیں، ان باتوں کے مستحضر کر لینے کے بعد ان حدیثوں کے مضامین کے متعلق وہ وساوس، اور شبہات ان شاء اللہ پیدا نہ ہوں گے، جو حقیقت نا شناسی کی وجہ سے بہت سے دلوں میں اس زمانہ میں پیدا ہوتے ہیں۔ ۱۔ انبیاء علیہم السلام کا خاص کام (جس کے لیے وہ مبعوث ہوتے ہیں) ہمیں ان باتوں کا بتلانا ہے، جن کے ہم ضرورت مند تو ہیں لیکن اپنے عقل و حواس سے بطور خود ہم ان کو نہیں جان سکتے، یعنی وہ ہماری عقل کی دسترس سے باہر ہیں۔ ۲۔ انبیاء علیہم السلام کے لیے یقینی علم کا ایک خاص ذریعہ جو دسرے عام انسانوں کے پاس نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کی وحی ہے، ان کو اسی ذریعہ سے ان چیزوں کا علم ہوتا ہے، جس کو ہم اپنی آنکھوں کانوں سے اور اپنی عقل و فہم سے دریافت نہیں کر سکتے، جس طرح دوربین رکھنے والا آدمی بہت دور کی وہ چیزیں دیکھ لیتا ہے، جن کو عام آدمی اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھتے۔ ۳۔ کسی نبی کو نبی مان لینے، اور اس پر ایمان لانے کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ ہم نے اس بات کو تسلیم کر لیا، اور پورے یقین کے ساتھ ان کو مان لیا اور قبول کر لیا، کہ وہ ایسی جو بات بتلاتا ہے جس کو ہم خود نہیں جانتے، اور نہیں دیکھتے، وہ اللہ کی وحی سے اس کا علم حاصل کر کے ہمیں بتلاتا ہے، اور وہ سب حرف بحرف صحیح ہے، اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ ۴۔ انبیاء علیہم السلام کبھی کوئی ایسی بات نہیں کہتے، جو عقلاً ناممکن اور محال ہو، ہاں! یہ ہو سکتا ہے کہ ہماری عقل اور ہمارے حواس بطور خود اس کو سمجھ لینے سے عاجز اور قاصر ہوں، بلکہ ایسا ہونا ضروری ہے، اگر انبیاء علیہم السلام صرف وہی باتیں بتلائیں جن کو ہم خود ہی غور و فکر سے معلوم کر سکتے ہوں، تو پھر ان کی ضرورت ہی کیا ہے۔ ۵۔ انبیاء علیہم السلام نے مابعد یعنی عالم برزخ (عالمِ قبر) اور عالم آخرت کے متعلق جو کچھ بتلایا ہے اس میں کوئی بات بھی ایسی نہیں ہے جو عقلاً ناممکن اور محال ہو، ہاں ایسی چیزیں ضرور ہیں جن کو ہم اپنے غور و فکر سے از خود نہیں جان سکتے اور اس دنیا میں ان چیزوں کے نمونے نہ ہونے کی وجہ سے ہم ان کو اس طرح سمجھ بھی نہیں سکتے، جس طرح اس دنیا کی دیکھی بھالی چیزوں کو سمجھ لیتے ہیں۔ ۶۔ علم کے جو عام فطری ذریعے اور وسیلے ہمیں دئیے گئے ہیں، مثلاً آنکھ، ناک، کان، عقل و فہم، ظاہر ہے کہ ان طاقت اور ان کا دائرہ عمل بہت محدود ہے، اور ہم دیکھتے ہیں کہ جدید آلات کی خارجی مدد سے ان کے ذریعہ بہت سی وہ چیزیں ہمارے علم میں آ جاتی ہیں جن کا پہلے کبھی تصور بھی نہیں کیا جاتا تھا۔ مثلاً: پانی میں یا خون میں جو جراثیم پائے جاتے ہیں، اب خوردبین کی مدد سے آنکھ ان کو دیکھ لیتی ہے، ریڈیو کی مدد سے کان ہزاروں میل دور کی آواز سن لیتے ہیں، اسی طرح کتابی معلومات کی مدد سے پڑھے لکھے انسان کی عقل اس سے زیادہ سوچ لیتی ہے، جتنا کہ آنکھ کان کے ذریعہ حاصل شدہ معلومات کی مدد سے سوچ سکتی تھی۔ اس تجربے سے معلوم ہوا کہ کسی حقیقت کا صرف اس بنیاد پر انکار کر دینا کہ آج ہم اس کو نہیں دیکھتے، نہیں سنتے، یا ہماری عقل اس کو نہیں سمجھتی، بڑی بے عقلی کی بات ہے۔ وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا ۷۔ انسان دو چیزوں سے مرکب ہے ایک جسم جو ظاہر ہے اور نظر آتا ہے، دوسری روھ جو اگرچہ آنکھوں سے نظر نہیں آتی، لیکن اس کے ہونے کا ہم سب کو یقین ہے، پھر انسان کے ان دونوں جزوں کا باہمی تعلق اس دنیا میں اس طرح ہے کہ تکلیف و مصیبت، یا راحت و لذت کی جو کیفیت یہاں آتی ہے وہ براہ راست جسم پر آتی ہے، اور روح اس سے تبعاً متاثر ہوتی ہے، مثلاً انسان کو چوٹ لگتی ہے، وہ زخمی ہوتا ہے، یا مثلاً وہ کہیں آگ سے جل جاتا ہے تو ظاہر کہ چوٹ اور آگ کا تعلق براہ راست اس کے جسم سے ہوتا ہے، لیکن اس کے اثر سے روح کو بھی دکھ ہوتا ہے، اسی طرح کھانے پینے سے جو لذت حاصل ہوتی ہے وہ بھی راہ راست جسم ہی کو ہوتی ہے، لیکن روح بھی اس سے لذت حاصل کرتی ہے۔ الغرض اس دنیا میں انسان کے وجود اور اس کے حالات میں گویا جسم اصل ہے اور روح اس کے تابع ہے، لیکن قرآن و حدیث میں عالمِ برزخ کے متعلق جو کچھ بتلایا گیا ہے اس میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں معاملہ اس کے برعکس ہوگا، یعنی اس عالم میں جس پر جو اچھی بری واردات ہو گی وہ براہ راست اس کی روح پر ہو گی، اور جسم اس سے تبعاً متاثر ہو گا، اللہ تعالیٰ نے (شاید اسی لیے کہ اس حقیقت کا سمجھنا ہمارے لئے آسان ہو جائے) اس دنیا میں بھی اس کا ایک نمونہ پیدا کر دیا ہے، اور وہ عالم رؤیا یعنی خواب ہے، عقل و ہوش رکھنے والا ہر انسان اپنی زندگی میں بار بار ایسے خواب دیکھتا ہے جن میں اس کو بڑی لذت ملتی ہے، یا بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ لیکن خواب میں یہ لذت یا تکلیف براہ راست در اصل روح کے لیے ہوتی ہے اور جسم تبعاً اس سے متاثر ہوتا ہے یعنی خواب میں آدمی مثلاً جب یہ دیکھتا ہے کہ کوئی لذیذ کھانا کھا رہا ہے، تو صرف یہی نہیں دیکھتا کہ میری روح ہی کھا رہی ہے، یا خیالی قوت ہی کھا رہی ہے، بلکہ اس وقت وہ یہی دیکھتا ہے کہ بیداری کی طرح وہ اپنے اس جسم والے منہ سے کھا رہا ہے جس سے روزانہ کھایا کرتا ہے۔ اسی طرح خوابمیں اگر وہ یہ دیکھتا ہے کہ کسی نے اس کو مارا، تو وہ یہ نہیں دیکھتا، کہ اس کی روح کو مارا گیا، بلکہ وہ اس وقت یہی دیکھتا ہے کہ مار اس کے جسم پر پڑی ہے اور اس کے جسم پر اس وقت ویسی ہی چوٹ لگی، جس بیداری میں مار پڑنے سے لگتی ہے، حالاں کہ واقعہ میں جو کچھ گزرتا ہے وہ خواب میں در اصل روح پر گزرتا ہے اور جسم اس سے تبعاً متاثر ہوتا ہے، البتہ کبھی کبھی جسم کا یہ تاثر اتنا محسوس ہو جاتا ہے کہ آدمی بیدار ہونے کے بعد جس پر اس کے نشانات اور اثرات پاتا ہے۔الغرض نیند کی حالت میں اچھے یا برے خواب دیکھنے والے شخص پر جو کچھ گذرتا ہے اس کی نوعیت یہی ہے کہ وہ براہ راست اور اصلی طور پر روح پر گزرتا ہے، اور جسم پر اس کا اثر تبعاً پڑتا ہے، اسی لیے خواب دیکھنے والے کے قریب والا آدمی بھی اس کے جسم پر کوئی واردات گزرتے ہوئے نہیں دیکھتا، کیوں کہ ہم اس دنیا میں کسی انسان کے ان ہی حالات کو دیکھ سکتے ہین جن کا تعلق براہ راست اس کے جسم سے ہو۔ پس عالم برزخ میں (یعنی مرنے کے بعد سے قیامت تک کے دور میں) اچھے برے انسانوں پر جو کچھ گزرنے والا ہے (جس کی بعض تفصیلات آگے آنے والی حدیثوں میں رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمائی ہیں) اس کی نوعیت بھی یہی ہے کہ وہ اصلی طور پر اور براہ راست روح پر گزرے گا اور جسم تبعاسً اس میں شریک ہو گا، اور عالم رؤیا (خواب) کے تجربات کی روشنی میں اس کو سمجھ لینا کسی سمجھنے والے آدمی کے لئے زیادہ مشکل نہیں ہے۔ امید ہے کہ اس دنیا، اور عالم برزخ کے اس فرق کو جان لینے کے بعد وہ عامیانہ اور جاہلانہ شبہے اور وسوسے پیدا نہ ہوں گے، جو قبر کے سوال و جواب اور عذاب و ثواب کی حدیثوں کے متعلق بعض ضعیف الایمان اور کم عقل لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوا کرتے ہیں۔
Top