معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 70
عَنْ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:«إِنَّ قُلُوبَ بَنِي آدَمَ كُلَّهَا بَيْنَ إِصْبَعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمَنِ، كَقَلْبٍ وَاحِدٍ، يُصَرِّفُهُ كَيْفَ يَشَاءُ» ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللهُمَّ مُصَرِّفَ الْقُلُوبِ صَرِّفْ قُلُوبَنَا عَلَى طَاعَتِكَ» (رواه مسلم)
ایمان و اسلام کا خلاصہ اور اس کا عطر
حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "بنی آدم کے تمام قلوب اللہ تعالیٰ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں، ایک دل کی طرح، وہ جس طرح (اور جس طرف) چاہتا ہے اس کو پھیر دیتا ہے"۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "اے دلوں کے پھیرنے والے، ہمارے دل اپنی اطاعت وبندگی کی طرف پھیر دے "۔

تشریح
ابھی اوپر بتلایا جا چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے افعال و صفات کو سمجھنے کے لئے چوں کہ الگ کوئی زبان نہیں ہے، اس لئے مجبوراً اس کے لئے بھی ان ہی الفاظ و محاورات کا استعمال کیا جاتا ہے، جو دراصل انسانی افعال و صفات کے لیے وضع کئے گئے ہیں، چنانچہ اس حدیث میں جو کہا گیا ہے، کہ بنی آدم کے قلوب اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں، تو اس کا مطلب صرف یہی ہے کہ انسانوں کے دل اللہ تعالیٰ کے اختیار اور اس کے قبضہ تصرف میں تصرف میں ہیں، وہی جدھر چاہتا ہے انہیں پھیر دیتا ہے۔ اور حدیث کی یہ تعبیر بالکل ایسی ہے جیسے کہ ہمارے محاورے میں کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص تو بالکل میری مٹھی میں ہے۔ مطلب یہی ہوتا ہے کہ وہ بالکل میرے اختیار میں ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہمارے دلوں کو بھی اللہ ہی جدھر چاہتا ہے پھیرتا ہے۔ مندرجہ بالا حدیثوں سےتقدری کے متعلق چند باتیں معلوم ہوئیں: ۱۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی تخلیق سے پچاس ہزار برس پہلے تمام مخلوقات کی تقدیریں مقدر فرما دیں، اور جو کچھ ہونا ہے گویا وہ سب بالتفصیل لکھ دیا۔ ۲۔ انسان جب رحم مادر میں ہوتا ہے اور اس پر تین چلے گزر جاتے ہیں، اور نفخ روح کا وقت آتا ہے تو اللہ کا مقرر کیا ہوا فرشتہ اس کے متعلق چار باتیں لکھتا ہے۔اس کی مدتِ عمر، اس کے اعمال، اس کا رزق اور اس کا نیک بخت یا بدبخت ہونا۔ ۳۔ ہمارے دلوں کو بھی اللہ تعالیٰ ہی جدھر چاہتا ہے پھیر دیتا ہے۔ دراصل تقدیر الہی کے یہ مختلف درجےاور مختلف مظاہر ہیں، اور حقیقی ازلی تقدیر ان سے سابق ہے، حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے تقدیر الہی کے ان مختلف مدارج اور مظاہر کو بہت سلجھا کر بیان فرمایا ہے، ذیل میں ہم ان کے کلام کا خلاصہ درج کرتے ہیں: تقدیر کے مختلف مدارج ۱۔ ازل میں جب کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کچھ بھی نہ تھا، زمین و آسمان، ہوا پانی، عرش و کرسی میں سے کوئی چیز بھی پیدا نہ کی گئی تھی (كَاَنَّ اللهُ وَلَمْ يَكُنْ مَعَهُ شَيْئٌ) تو اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کو بعد میں پیدا ہونے والی اس ساری کائنات کا پورا پورا علم تھا۔ پس اس دور ازل ہی میں اس نے ارادہ اور فیصلہ کیا، کہ اس تفصیل اور ترتیب کے مطابق جو میرے علم میں ہے، میں عالم کو پیدا کروں گا اور اس میں یہ یہ واقعات پیش آئیں گے۔ الغرض آئندہ وجود میں آنے والے کے متعلق جو تفصیل و ترتیب اس کے ازلی علم میں تھی، اس نے ازل ہی میں طے فرمایا، کہ میں اس سب کو وجود میں لاؤں گا۔ پس یہ طے فرمانا ہی تقیر کا پہلا مرتبہ اور پہلا ظہور ہے۔ ۲۔ پھر ایک وقت آیا، جب کہ پانی اور عرش پیدا کئے جا چکے تھے، مگر زمین و آسمان پیدا نہ ہوئے تھے۔ (بلکہ حدیث نمبر ۶۸ کی تصریح کے مطابق زمین و آسمان کی تخلیق سے پچاس ہزار برس پہلے) اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کی تقدیریں پہلی ازلی تقدیر کے مطابق لکھ دیں۔ (جسکی حقیقت حضرت شاہ ولی الہ کے نزدیک یہ ہے کہ عرش کی قوتِ خیالیہ میں تمام مخلوق کی تفصیلی تقدیر منعکس کر دی اور اس طرح عرش اس تقدیر کا حامل ہو گیا) یہ تقدیر کا دوسرا درجہ اور دوسرا ظہور ہوا۔ ۳۔ پھر ہر انسان کی تخلیق جب رحم مادر میں شروع ہوتی ہے، اور تین چلے گزر جانے پر جب اُس میں روح ڈالنے کا وقت آتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا مقرر کیا ہوا فرشتہ اللہ تعالیٰ ہی سے علم حاصل کر کے اس کے متعلق ایک تقدیری نوشتہ مرتب کرتا ہے، جس میں اس کی مدتِ حیات، اعمال، رزق اور شقاوت یا سعادت کی تفصیل ہوتی ہے، یہ نوشتہ تقدیر کا تیسرا درجہ اور تیسرا ظہور ہے۔ ۴۔ پھر انسان جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے وہ اس کو کرتا ہے، جیسا کہ حدیث نمبر ۷۰ میں فرمایا، کہ انسانوں کے سب دل اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں، وہ جدھر چاہتا ہے انہیں پھیرتا ہے، پس یہ تقدیر کا چوتھا درجہ اور چوتھا ظہور ہے۔ اگر اس تفصیل کو ملحوظ رکھا جائے تو تقدیر کے سلسلہ کی مختلف احادیث کے مطالب و محامل کے سمجھنے میں ان شاء اللہ مشکل پیش نہ آئے گی۔ مسئلہ تقدیر سے متعلق بعض شبہات کا ازالہ بہت سے لوگوں کو کم فہمی سے تقدیر کے متعلق جو شبہات ہوتے ہیں، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مختصراً اُن کے متعلق بھی کچھ عرض کر دیا جائے۔ اس مسئلہ میں مندرجہ ذیل تین اشکال مشہور ہیں۔ اول۔۔۔یہ کہ دنیا میں اچھا بُرا جو کچھ ہوتا ہے، اگر یہ سب اللہ ہی کی تقدیر سے ہے، اور اللہ ہی نے اس کو مقدر کیا ہے تو پھر اچھائیوں کے ساتھ تمام بُرائیوں کی ذمہ داری بھی (معاذ اللہ) اللہ تعالیٰ پر آئے گی۔ دوسرا۔۔۔ یہ کہ جب سب کچھ پہلے سے من جانب اللہ مقدور ہو چکا ہے، اور اس کی تقدیر اٹل ہے، تو بندے اسی کے مطابق کرنے پر مجبور ہیں، لہذا انہیں کوئی جزا سزا نہ ملنی چاہئے۔ تیسرا۔۔۔ شبہ یہ کیا جاتا ہے کہ جو کچھ ہونا ہے جب وہ سب پہلے سے مقدر ہی ہو چکا ہے اور اس کے خلاف کچھ ہو ہی نہیں سکتا ہے، تو پھر کسی مقصد کے لئے کچھ کرنے دھرنے کی ضرورت ہی نہیں لہذا دنیا یا آخرت کے کسی کام کے لیے محنت اور کوشش فضول ہے۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا، کہ یہ تینوں شبہے تقدیر کے غلط اور ناقص تصور سے پیدا ہوتے ہیں۔ عرض کیا جا چکا ہے کہ اللہ کی تقدیر اس کے علم ازلی کے مطابق، اور اس کارخانہ عالم میں جو کچھ جس طرح اور جس صفت کے ساتھ اور جس سلسلہ سے ہو رہا ہے وہ بالکل اسی طرح، اور اسی صفت اور اسی سلسلہ کے ساتھ اس کے علم ازلی میں تھا، اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اس کو مقدر فرما دیا ہے۔ اور ہم میں سے جو شخص بھی اپنے اعمال و افعال پر غور کرے گا، وہ بغیر کسی شک شبہ کے اس حقیقت کو محسوس کرے گا کہ اس دنیا میں ہم جو بھی اچھے یا برے عمل کرتے ہیں، وہ اپنے ارادے اور اختیار سے کرتے ہیں، ہر کام کے کرنے کے وقت اگر ہم غور کریں تو بدیہی اور یقینی طور پر محسوس ہو گا کہ ہم کو یہ قدرت حاصل ہے کہ چاہیں تو اس کو کریں اور چاہیں تو نہ کریں، پھر اس قدرت کے باوجود ہم اپنے خداد ارادے اور اختیار سے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں اور اسی فیصلے کے مطابق عمل ہوتا ہے پس اس عالم میں جس طرح ہم اپنے ارادہ اور اختیار سے اپنے تمام کام کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کو ازل میں اسی طرح ان کا علم تھا اور پھر اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو مقدر فرمایا اور اس پورے سلسلے کے وجود کا فیصلہ فرما دیا۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے صرف ہمارے اعمال ہی کو مقدر نہیں فرمایا ہے بلکہ جس ارادہ اور اختیار سے ہم عمل کرتے ہیں وہ بھی تقدیر میں آ چکا ہے، گویا تقدیر میں صرف یہی نہیں ہے، کہ فلاں شخص فلاں اچھا یا بُرا کام کرے گا، بلکہ تقدیر میں یہ پوری بات ہے، کہ فلاں شخص اپنے ارادہ و اختیار سے ایسا کرے گا، پھر اس سے یہ نتائج پیدا ہوں گے، پھر اس کو یہ جزا یا سزا ملے گی۔ الغرض ہم کو اعمال میں جو ایک گونہ خود اختیاری اور خود ارادیت حاصل ہے، جس کی بناء پر ہم کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں، وہ بھی تقدیر میں ہے، اور ہمارے اعمال کی ذمہ داری اسی پر ہے، اور اسی کی بناء پر انسان مکلف ہے، اور اسی پر جزا و سزا کی بنیاد ہے۔ بہر حال تقدیر نے اس خود اختیاری اور خود ارادیت کو باطل اور ختم نہیں کیا، بلکہ اس کو اور زیادہ ثابت اور مستحکم کر دیا ہے، لہذا تقدیر کی وجہ سے نہ تو ہم مجبور ہیں، اور نہ ہمارے اعمال کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ پر ہوتی ہے۔ ایسے ہی جن مقاصد کے لئے ہم جو کوششیں اور جو تدبیریں اس دُنیا میں کرتے ہیں، تقدیر میں بھی ہمارے ان مقاصد کو ان ہی تدبیروں اور کوششوں سے وابستہ کیا گیا ہے۔ الغرض تقدیر میں صرف یہ نہیں ہے کہ فلاں شخص کو فلاں فلاں چیز حاصل ہو جائے گی، بلکہ جس کوشش اور جس تدبیر سے وہ چیز اس دُنیا میں حاصل ہونے والی ہوتی ہے، تقدیر میں بھی وہ اسی تدبیر سے بندھی ہوئی ہے۔ بہر حال جیسا کہ عرض کیا گیا تقدیر میں اسباب و مُسببات کا پورا سلسلہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح کہ اس دنیا میں ہے۔ پس یہ خیال کرنا کہ تقدیر مٰں جو کچھ ہے وہ آپ سے آپ مل جائے گا، اور اس بناء پر اس عالم اسباب کی کوششوں اور تدبیروں سے دست بردار ہونا دراصل تقدیر کی حقیقت سے ناواقفی ہے۔ حدیث نمبر ۶۴، ۶۵ میں بعض صحابہؓ کے سوالات کے جواب میں رسول اللہ ﷺ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس کا حاصل بھی یہی ہے۔ الغرض اگر تقدیر کی پوری حقیقت سامنے رکھ لی جائے، تو ان شاء اللہ اس قسم کا کوئی شبہ بھی پیدانہ ہو گا۔ وَاللَّـهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
Top