ایمان و اسلام کا خلاصہ اور اس کا عطر
ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ ہم لوگ (مسجد نبوی میں بیٹھے) قضاو قدر کے مسئلہ میں بحث مباحثہ کر رہے تھے، کہ اسی حال میں رسول اللہ ﷺ باہر سے تشریف لے آئے (اور ہم کو یہ بحث کرتے دیکھا) تو آپ بہت برافروختہ اور غضب ناک ہوئے، یہاں تک کہ چہرہ مبارک سُرخ ہو گیا، اور اس قدر سُرخ ہوا، کہ معلوم ہوتا تھا آپ کے رخساروں پر انار نچوڑ دیا گیا ہے۔ پھر آپ نے ہم سے فرمایا: کیا تم کو یہی حکم کیا گیا ہے، کیا میں تمہارے لئے یہی پیام لایا ہوں (کہ تم قضاء و قدر کے جیسے اہم اور نازک مسئلوں میں بحث کرو)۔ خبردار! تم سے پہلی امتیں اُسی وقت ہلاک ہوئیں جب اُنہوں نے اس مسئلہ میں حجت اور بحث کو اپنا طریقہ بنا لیا، میں تم کو قسم دیتا ہوں، میں تم پر لازم کرتا ہوں، کہ اس مسئلہ میں ہرگز حجت اور بحث نہ کیا کرو۔
تشریح
قضاء و قدر کا مسئلہ بلا شبہ مشکل و نازک مسئلہ ہے، لہذا مؤمن کو چاہئے کہ اگر یہ مسئلہ اس کی سمجھ میں نہ آئے، تو بحث اور حجت نہ کرے، بلکہ اپنے دل و دماغ کو اس پر مطمئن کر لے کہ اللہ کے صادق و مصدوق رسول نے اس مسئلہ کو اسی طرح بیان فرمایا ہے، لہذا ہم اس پر ایمان لائے۔ تقدیر کا مسئلہ تو اللہ تعالیٰ کی صفات سے تعلق رکھتا ہے، اس لیے اس کو نازک اور مشکل ہونا ہی چاہئے، ہمارا حال تو یہ ہے کہ اسی دنیا کے بہت سے معاملات اور بہت سے رازوں کو ہم میں سے بہت سے نہیں سمجھ سکتے، پس جب اللہ کے سچے پیغمبر (علیہ الصلوٰۃ والسلام) نے ایک حقیقت بیان فرما دیا (جس کا پوری طرح سمجھ لینا سب کے لیے آسان نہیں ہے) تو جن لوگوں کی سمجھ میں نہ آئے، اُن کے لیے بھی ایمان لائے کے بعد صحیح طریق کار یہی ہے کہ وہ اُس کے بارے میں کوئی بحث اور کٹ حجتی نہ کریں، بلکہ اپنے قول اور اپنے ذہن کی نا رسائی کا اعتراف کرتے ہوئے اس پر ایمان لائیں۔
رسول اللہ ﷺ کے سخت غصہ اور جلال کی وجہ غالباً یہ تھی،کہ حضرات آپ کی تعلیم و تربیت میں تھے اور آپ براہِ راست دین حاصل کر رہے تھے، ان کو جب آپ نے اس غلطی میں مبتلا دیکھا، تو قلبی تعلق رکھنے والے معلم و مربی کی طرٖح آپ کو سخت غصہ آیا۔
اس موقع پر آپ نے جو یہ ارشاد فرمایا کہ: "تم سے پہلی امتیں اسی وقت ہلاک ہوئیں جب کہ انہوں نے اس مسئلہ میں حجت و بحث کا طریقہ اختیار کیا"۔ تو یہاں امتوں کے ہلاک ہونے سے مراد غالباً ان کی گمراہی ہے، قرآن و حدیث میں ہلاکت کا لفظ گمراہی کے لیے بکثرت استعمال ہوا ہے، اس بنا پر آپ کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہو گا کہ اگلی امتوں میں اعتقادی گمراہیاں اُس وقت آئیں، جب کہ انہوں نے اس مسئلہ کو حجت و بحث کا موضوع بنایا۔
تاریخ شاہد ہے کہ امتِ محمدیہ میں بھی اعتقادی گمراہیوں کا سلسلہ اسی مسئلہ سے شروع ہوا ہے۔
یہ واضح رہے کہ اس حدیث میں ممانعت حجت اور نزاع سے فرمائی گئی ہے، پس اگر کوئی شخص تقدیر کے مسئلہ پر ایک مؤمن کی طرح قطعی ایمان رکھتے ہوئے صرف اطمینان قلبی کے لیے اس مسئلہ کے بارے میں کسی اہل سے سوال کرے تو اس کی ممانعت نہیں ہے۔
اس سے پہلی دو حدیثوں میں خود رسول اللہ ﷺ نے بعض صحابہ کرامؓ کے سوال کے جواب ہی میں اس مسئلہ کے بعض پہلوؤں کو خود سمجھایا ہے۔