ایمان و اسلام کا خلاصہ اور اس کا عطر
حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "تم میں سے ہر ایک کا ٹھکانا دوزخ کا اور جنت کا لکھا جا چکا ہے (مطلب یہ ہے کہ جو شخص دوزخ میں یا جنت میں جہاں بھی جائے گا، اس کی وہ جگہ پہلے سے مقدر اور مقرر ہو چکی ہے"۔ صحابہ نے عرض کیا: تو کیا ہم اپنے اس نوشتہ تقدیر پر بھروسہ کرکے نہ بیٹھ جائیں، اور سعی و عمل چھوڑ نہ دیں (مطلب یہ ہے کہ جب سب کچھ پہلے ہی سے طے شدہ اور لکھا ہوا ہے تو پھر ہم سعی و عمل کی درد سری کیوں مول لیں)۔ آپ نے فرمایا "نہیں! عمل کئے جاؤ، کیوں کہ ہر ایک کو اسی کی توفیق ملتی ہے جس کے لیے وہ پیدا ہوا ہے، پس جو کوئی نیک بختوں میں سے ہے تو اُس کو سعادت اور نیک بختی کے کاموں کی توفیق ملتی ہے، اور جو کوئی بدبختوں میں سے ہے اُس کو شقاوت اور بدبختی والے اعمالِ بد ہی کی توفیق ملتی ہے، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے قرآن پاک کی یہ آیت تلاوت فرمائی:
فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى وَصَدَّقَ بِالحُسْنَى فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى، وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنَى، وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَى فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى (والليل)
جس نے راہِ خدا میں دیا اور تقویٰ اختیار کیا اور اچھ بات کی تصدیق کی (یعنی دعوتِ اسلام کو قبول کیا) تو اُسکو ہم چین و راحت کی زندگی یعنی جنت حاصل کرنے کی توفیق دیں گے اور جس نے بخل سے کام لیا، اور مغرور و بے پرواہ رہا، اور اچھی بات کو یعنی دعوتِ ایمان کو جھٹلایا، تو اس کے واسطے ہم تکلیف کی اور دشواری والی زندگی (یعنی دوزخ) کی طرف چلنا آسان کر دیں گے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
رسول اللہ ﷺ کے جواب کا حاصل یہ ہے کہ اگرچہ ہر شخص کے لیے اُس کا آخری ٹھکانہ دوزخ یاجنت میں پہلے سے مقرر ہو چکا ہے، لیکن اچھے یا برے اعمال سے وہاں تک پہنچنے کا راستہ بھی پہلے سے مقدر ہے اور تقدیر الہی میں یہ بھی طے ہو چکا ہے کہ جو جنت میں جائے گا، وہ اپنے فلاں فلاں اعمالِ خیر کے راستے جائے گا اور جو جہنم میں جائے گا وہ اپنی فلاں فلاں بد اعمالیوں کی وجہ سے جائے گا، پس جنتیوں کے اعمالِ خیر اور دوزخیوں کے لیے اعمالِ بد بھی مقدور و مقرر ہیں، اور اس لئے ناگزیر ہیں، حضور ﷺ کے اس جواب کا ما حصل بھی قریب قریب وہی ہے، جو اوپر والی حدیث میں آپ کے جواب کا تھا۔ ابھی عنقریب اس مضمون کی کچھ اور وضاحت اور تفصیل بھی کی جائے گی۔