معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 64
عَنْ ابْنِ أَبِي خُزَامَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ رُقًى نَسْتَرْقِيهَا وَدَوَاءً نَتَدَاوَى بِهِ وَتُقَاةً نَتَّقِيهَا هَلْ تَرُدُّ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ شَيْئًا؟ فَقَالَ: «هِيَ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ» (رواه احمد والترمذى وابن ماجه)
ایمان و اسلام کا خلاصہ اور اس کا عطر
ابو خزامہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، کہ انہوں نے بیان کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: کیا ارشاد ہے اس بارہ میں کہ جھاڑ پھونک کے وہ طریقے جن کو ہم دکھ درد میں استعمال کرتے ہیں، یا دوائیں جن سے ہم اپنا علاج کرتے ہین، یا مصیبتوں اور تکلیفوں سے بچنے کی وہ تدبیریں جن کو ہم اپنے بچاؤ کے لیے استعمال کرتے ہیں، کیا یہ چیزیں اللہ کی قضاء و قدر کو لوٹا دیتی ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ سب چیزیں بھی اللہ کی تقدیر سے ہے۔ (مسند احمد، ترمذی، ابن ماجہ)

تشریح
رسول اللہ ﷺ کے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم جن مقاصد کے حاصل کرنے کے لیے جو تدبیریں اور کوششیں کرتے ہیں، اور اس سلسلہ میں جن اسباب کا استعمال کرتے ہیں، وہ سب بھی اللہ کی قضاء و قدر کے ماتحت ہیں، گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی یہ مقدر اور مقرر ہوتا ہے کہ فلاں شخص پر فلاں بیماری آئے گی اور فلاں قسم کے جھاڑ پھونک، یا فلاں دوا کے استعمال سے وہ اچھا ہو جائے گا۔۔۔ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ رسول اللہ ﷺ کے اس نہایت مختصر دو لفظی جواب سے مسئلہ تقدیر کے متعلق بہت سے شبہات اور سوالات کا جواب ہو جاتا ہے۔
Top