معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 63
عَنِ ابْنِ الدَّيْلَمِيِّ، قَالَ: أَتَيْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ، فَقُلْتُ: لَهُ قَدْ وَقَعَ فِي نَفْسِي شَيْءٌ مِنَ الْقَدَرِ، فَحَدِّثْنِي لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُذْهِبَهُ مِنْ قَلْبِي، فَقَالَ: «لَوْ أَنَّ اللَّهَ عَذَّبَ أَهْلَ سَمَاوَاتِهِ وَأَهْلَ أَرْضِهِ عَذَّبَهُمْ وَهُوَ غَيْرُ ظَالِمٍ لَهُمْ، وَلَوْ رَحِمَهُمْ كَانَتْ رَحْمَتُهُ خَيْرًا لَهُمْ مِنْ أَعْمَالِهِمْ، وَلَوْ أَنْفَقْتَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ مَا قَبِلَهُ اللَّهُ مِنْكَ حَتَّى تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ، وَتَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَكَ، وَأَنَّ مَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَكَ، وَلَوْ مُتَّ عَلَى غَيْرِ هَذَا لَدَخَلْتَ النَّارَ»، قَالَ: ثُمَّ أَتَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ فَقَالَ مِثْلَ ذَلِكَ، قَالَ: ثُمَّ أَتَيْتُ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ، فَقَالَ مِثْلَ ذَلِكَ، قَالَ: ثُمَّ أَتَيْتُ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ فَحَدَّثَنِي عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذَلِكَ (رواه احمد وابو داؤد وابن ماجة)
ایمان و اسلام کا خلاصہ اور اس کا عطر
ابن الدیلمی سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں (مشہور صحابی رسول) ابی بن کعبؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا، کہ: تقدیر کے متعلق میرے دل میں کچھ خلجان سا پیدا ہو گیا ہے، لہذا آپ اس کے متعلق کچھ بیان فرمائیں، شاید اللہ تعالیٰ اس خلجان کو میرے دل سے دور کر دے (اور مجھے اس مسئلہ میں اطمینان نصیب ہو جائے)۔ انہوں نے فرمایا: سنو! اگر اللہ تعالیٰ اپنے زمین و آسمان کی ساری مخلوق کو عذاسب میں ڈال دے، تو وہ اپنے اس فعل میں ظالم نہ ہو گا اور اگر وہ ان سب کو اپنی رحمت سے نوازے، تو اس کی یہ رحمت اُن کے اعمال سے بہتر ہو گی، (یعنی ان پر یہ اس کا محض فضل و احسان ہو گا، اُن کے اعمال کا واجب حق نہ ہو گا اور سنو! تقدیر پر ایمان لانا اس قدر ضروری ہے، کہ اگر تم احد پہاڑ کے برابر سونا راہِ خدا میں خرچ کر دو، تو اللہ کے یہاں وہ قبول نہ ہو گا جب تک کہ تم تقدیر پر ایمان نہ لاؤ، اور تمہارا پختہ اعتقاد یہ نہ ہو کہ جو کچھ تمہیں پیش آتا ہے، تم کسی طرح اُس سے چھوٹ نہیں سکتے تھے، اور جو حالات تم پر پیش نہیں آتے وہ تم پر آ ہی نہیں سکتے تھے (یعنی جو کچھ، ہوتا ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر اور مقرر ہو چکا ہے اور اس مقررہ پروگرام میں ذرہ برابر تبدیلی بھی ممکن نہیں ہے) اور اگر تم اس کے خلاف اعتقاد رکھتے ہوئے مر گئے، تو یقیناً تم دوزخ میں جاؤ گے۔ ابن الدیلمی کہتے ہیں، کہ ابی بن کعب سے یہ سننے کے بعد میں عبداللہ بن مسعود کی خدمت میں حاضر ہوا، تو انہوں نے بھی مجھ سے یہی فرمایا، اس کے بعد میں حذیفہ کی خدمت میں حاضر ہوا، تو انہوں نے بھی مجھ سے یہی فرمایا، پھر میں زید بن ثابت کی خدمت میں حاضر ہوا، تو انہوں نے یہی بات رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے طور پر مجھ سے بیان فرمائی (مسند احمد، ابو داؤد، ابن ماجہ)

تشریح
تقدیر کے متعلق ایک عام وسوسہ جس کو شیطان کبھی کبھی بعض ایمان والوں کے قلوب میں بھی ڈالتا ہے، یہی ہے کہ جب سب کچھ اللہ ہی کی تقدیر سے ہو رہا ہے تو پھر دنیا میں کوئی اچھے حال میں اور کوئی بُرے حال میں کیوں ہے، اور آخرت میں کیوں کسی کو جنت میں اور کسی کو دوزخ میں ڈالا جائے گا!۔۔۔ اگر کسی صاحب ایمان کے دل میں کبھی یہ وسوسہ آئے، تو اس کے دفع کرنے کی آسان اور مختصر تدبیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کوسارے عالم کا خالق و مالک ہونے کی حیثیت سے تمام بندوں اور ساری مخلوقات پرجو کامل اختیار حاصل ہے اُس کی یاد تازہ کر لی جائے، اور سوچا جائے کہ ایسا لا شریک مالک الملک اور عدم محض سے وجود میں لانے والا خالق و صانع اپنی جس مخلوق کے ساتھ جو معاملہ بھی کرے، بلا شبہ وہ اُس کا حقدار ہے، وہ سب کو عذاب میں مبتل کرے، تو کسی قانون سے اُس کو ظالم نہیں کہا جا سکتا اور اگر سب کو رحمت سے نوازے، تو یہ رحمت اُس کی محض بخشش ہی ہو گی، کیوں کہ جو نیکو کار لوگ نیک اعمال کرتے ہیں ان کی توفیق دینے والا، اور اعمال کرانے والا بھی وہی ہے۔ بہر حال مخلوق کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی اس خاص حیثیت کو اگر اچھی طرح ذہن نشین کر لیا جائے، تو مؤمن کے دل سے تو یہ شبہ بالکل جاتا رہے گا اور اُس کو اطمینان ہو جائے گا۔ ابن الدیلمی بحمد اللہ چونکہ سچے مؤمن تھے، اور اللہ تعالیٰ کی اس شان پر ایمان و اعتقاد رکھتے تھے، اس لیے ان صحابہ کرامؓ نے اسی کی یاد ہانی کے ذریعہ ان کے وسوسہ کا علاج کیا اور انہیں یہ بھی بتلادیا کہ تقدیر پر ایمان و اعتقاد اتنا ضروری ہے کہ اگر کوئی شخص اس عقیدے کے بغیر پہاڑ کے برابر سونا بھی راہِ خدا میں خرچ کرے،تو اللہ تعالیٰ کے یہاں قبول نہیں، اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہی ہو گا۔ بہر حال یہ ملحوظ رہنا چاہیے، کہ اس طریقہ سے صرف اہلِ ایمان ہی کے اس قسم کے وسوسے کا علاج کیا جا سکتا ہے دوسرے لوگوں کی طرف سے تقدیر کے متعلق جو شبہات کئے جاتے ہیں ان کے جواب کا طریقہ دوسرا ہے، اس کے معلوم کرنے کے لیے علم کلام کی کتابوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے، اور کچھ مختصر اشارات ان شاء اللہ تعالیٰ آئندہ صفحات میں کئے جائیں گے۔
Top