معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 62
عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «الدِّينُ النَّصِيحَةُ» قُلْنَا: لِمَنْ؟ قَالَ: «لِلَّهِ وَلِكِتَابِهِ وَلِرَسُولِهِ وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ» (رواه مسلم)
ایمان و اسلام کا خلاصہ اور اس کا عطر
حضرت تمیم داری روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دین نام ہے "خلوص اور وفاداری" کا۔ ہم نے عرض کیا کہ "کس کے ساتھ خلوص (۲) اور وفا داری؟" ارشاد فرمایا: اللہ کے ساتھ، اللہ کی کتاب کے ساتھ، اللہ کے رسول کے ساتھ، مسلمانوں کے سرداروں، پیشواؤں کے ساتھ اور اُن کے عوام کے ساتھ (مسلم)

تشریح
یہ حدیث بھی "جوامع الکلم" میں سے ہے، امام نوویؒ نے لکھا ہے کہ کل مقاصدِ دین کو یہ حدیث جامع ہے، اور اس پر عمل کر لینا گویا دین کے پورے منشا کو ادا کر دینا ہے، کیوں کہ دین کاکوئی شعبہ اور کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جو اس حدیث کے مضمون سے باہر رہ گیا ہو۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے، کہ اس حدیث میں اللہ، کتاب اللہ، رسول اللہ، ائمہ امت و پیشوایانِ ملت، اور عوام مسلمانوں کے ساتھ خلوص و وفاداری کو دین بتلایا گیا ہے، اور یہی کُل دین ہے، کیوں کہ اللہ کے ساتھ اخلاص و وفاداری کا مطلب یہ ہے کہ اُس پر ایمان لایا جائے، ممکن حد تک اُس کی معرفت حاصل کی جائے، اُس کے ساتھ انتہائی محبت کی جائے، اُس کی اطاعت و عبادت کی جائے، اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے، اور مالک و مقتدر جانتے ہوئے اُس سے ڈرا جائے، غرض پورے اخلاص و وفا کے ساتھ عبدیت کا حق ادا کیا جائے۔ اور کتاب اللہ کے ساتھ وفاداری یہ ہے کہ اُس پر ایمان لایا جائے، اُس کا حقِ عظمت ادا کیا جائے، اُس کا علم حاصل کیا جائے، اُس کا علم پھیلایا جائے، اُس پر عمل کیا جائے۔ علیٰ ھذا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خلوص و وفا یہ ہے کہ اُن کی تصدیق کی جائے، تعظیم و توقیر کی جائے، اُن سے ان کی تعلیمات اور ان کی سنتوں سے محبت کی جائے، اور دل و جان سے اُن کی پیروی و غلامی میں اپنی نجات سمجھی جائے۔ اور ائمہ مسلمین (یعنی مسلمانوں کے سرداروں اور پیشواؤں، حاکموں اور رہنماؤں) کے ساتھ خلوص و وفاداری یہ ہے کہ اُن کی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں اُن کی مدد کی جائے، اُن کے ساتھ نیک گمان رکھا جائے، اور اگر اُن سے کوئی غفلت اور غلطی ہوتی نظر آئے تو بہتر طریقہ پر اُس کی اصلاح اور درستگی کی کوشش کی جائے، اچھے مشوروں سے دریغ نہ کیا جائے، اورع معروف کی حد تک اُن کی بات مانی جائے۔ اور عام مسلمانوں کے ساتھ خلوص و وفا یہ ہے کہ اُن کی ہمدردی و خیر خواہی کا پورا پورا خیال رکھا جائے، اُن کا نفع اپنا نفع اور اُن کا نقصان اپنا نقصان سمجھا جائے، جائز اور ممکن خدمت اور مدد سے دریغ نہ کیا جائے۔ الغرض علیٰ فرقِ مراتب اُن کے جو حقوق عظمت و شفقت اور خدمت و تعاون کے مقرر ہیں اُن کو ادا کیا جائے۔ اس تفصیل سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے، کہ یہ حدیث کس طرح پورے دین کو حاوی ہے اور دین کے تمام شعبوں کو اِن مختصر لفظوں میں کس طرح ادا کر دیا گیا ہے۔ اور اس پر صحیح طور سے عمل کرنا گویا پورے دین پر عمل کرنا ہے۔ تقدیر کا ماننا بھی شرطِ ایمان ہے (حدیث جبرئیل کے ضمن میں اور بعض اور حدیثوں میں بھی تقدیر کا ذکر پہلے آچکا ہے، اور اجمالاً معلوم ہو چکا ہے کہ تقدیر پر ایمان لانا بھی ضروریات میں سے ہے، لیکن یہاں تقدیر کے متعلق چند حدیثیں مستقل طور سے ذکر کی جائیں گی، جن سے اس اہم مسئلہ کی اہمیت اور کچھ تفصیلات بھی معلوم ہوں گی)۔
Top