معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 61
عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عَبْدِ اللهِ الثَّقَفِيِّ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، قُلْ لِي فِي الْإِسْلَامِ قَوْلًا لَا أَسْأَلُ عَنْهُ أَحَدًا بَعْدَكَ - وَفِي حَدِيثِ أَبِي أُسَامَةَ غَيْرَكَ - قَالَ: " قُلْ: آمَنْتُ بِاللهِ، ثُمَّ اسْتَقِمْ " (رواه مسلم)
ایمان و اسلام کا خلاصہ اور اس کا عطر
سفیان بن عبد اللہ ثقفی سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ دے عرض کیا، کہ: "یا رسول اللہ! اسلام کے بارے میں مجھے کوئی ایسی جامع اور شافی بات بتائیے کہ آپ کے بعد پھر میں کسی سے اس بارے میں کچھ نہ پوچھوں" آپ نے ارشاف فرمایا: "کہو میں اللہ پر ایمان لایا اور پھر پوری طرح اور ٹھیک ٹھیک اُس پر قائم رہو "۔ (مسلم)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ اللہ ہی کو اپنا الہ اور رب مان کر اپنے کو بس اُس کا بندہ بنا دو، اور پھر اس ایمان اور عبدیت کے تقاضوں کے مطابق ٹھیک ٹھیک چلنا اپنی زنگی کا دستور بنا لو، بس یہی کافی ہے۔ یہ حدیث "جوامع الکلم" میں سے ہے، رسول اللہ ﷺ کے جواب کے ان دو لفظوں میں اسلام کا پورا خلاصہ آ گیا ہے "ایمان باللہ اور اس پر استقامت" ہی اسلام کی غرض و غایت، بلکہ اُس کی روح ہے۔ "ایمان باللہ" کا مطلب تو کتاب کے بالکل شروع میں حدیث جبرئیل کی تشریح میں بیان کیا جا چکا ہے، اور استقامت کے معنی ہیں بلا افراط و تفریط اور بغیر کسی کجی اور انحراف کے اللہ کی مقرر کی ہوئی "صراط مستقیم" پر قائم رہنا، ار ہمیشہ اُس کی ٹھیک ٹھیک پیروی کرتے رہنا گویا تمام اوامر و نواہی اور جملہ احکام خداوندی کے صحیح مکمل اور دائمی اتباع کا نام استقامت ہے، اور ظاہر ہے کہ بندوں کے لیے اس سے آگے کوئی مقام نہیں ہے، اسی لئے بعض اکابر صرفیہ نے فرمایا ہے: الْاِسْتِقَامَةُ خَيْرٌ مِنْ اَلْفِ كَرَامَةیعنی استقامت ہزاروں کرامتوں سے بہتر اور بالا تر ہے۔ بہر حال استقامت وہ چیز ہے کہ اس کی تعلیم کے بعد کسی اور سبق کے لینے کی ضرورت نہیں رہتی، اور بس وہی انسان کے لیے کافی ہے، قرآن مجید میں بھی کئی جگہ انسان کی سوادت اور فلاح کو ایمان باللہ اور استقامت ہی سے وابستہ کیا گیا ہے۔ اُن میں سے ایک آیت یہ ہے: اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُوْنَۚ۰۰۱۳ اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا١ۚ جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۰۰۱۴ (الاحقاف: ۴۶: ۱۳، ۱۴) بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہی ہے (اور ہم اسی کے بندے ہیں) اور پھر وہ اس پر مستقیم رہے تو انہیں کوئی خوف و خطر نہیں، اور نہ اُن کو رنج و غم ہو گا وہ سب جنتی ہیں، اپنے اعمال کے بدلہ میں وہ جنت ہی میں ہمیشہ رہیں گے۔ بلکہ "اِرْجَاعُ السُّنَّةِ اِلَى الْكِتَاب " کے اصول پر کہا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سفیان بن عبداللہ ثقفی کو یہ جواب شاید ایسی ہی آیات کی روشنی میں دیا ہو گا۔ (۱)
Top