معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 58
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: جَاءَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلُوهُ: إِنَّا نَجِدُ فِي أَنْفُسِنَا مَا يَتَعَاظَمُ أَحَدُنَا أَنْ يَتَكَلَّمَ بِهِ، قَالَ: «وَقَدْ وَجَدْتُمُوهُ؟» قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: «ذَاكَ صَرِيحُ الْإِيمَانِ» (رواه مسلم)
بعض منافقانہ اعمال و عادات
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول کے اصحاب میں سے کچھ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے دریافت کیا کہ ہمارا حال یہ ہے کہ بعض اوقات ہم اپنے دلوں میں ایسے بُرے خیالات اور وسوسے پاتے ہیں کہ اُن کو زبان سے کہنا بھی بہت بُرا اور بہت بھاری معلوم ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا واقعی تمہاری یہ حالت ہے؟ انہوں نے عرض کیا: ہاں! یہی حال ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ: یہ تو خالص ایمان ہے۔ (مسلم)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کی یہ کیفیت کہ وہ دین و شریعت کے خلاف وساوس سے اتنا گھبرائے اور ان کو اتنا بُرا سمجھے کہ زبان سے ادا کرنا بھی اس کو گراں ہو، یہ خالص ایمانی کیفیت ہے۔
Top