معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 54
عَنْ اَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، «تِلْكَ صَلَاةُ الْمُنَافِقِ، يَجْلِسُ يَرْقُبُ الشَّمْسَ حَتَّى إِذَا كَانَتْ بَيْنَ قَرْنَيِ الشَّيْطَانِ، قَامَ فَنَقَرَهَا أَرْبَعًا، لَا يَذْكُرُ اللهَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا» (رواه مسلم)
بعض منافقانہ اعمال و عادات
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، کہ: یہ تو منافق والی نماز ہے کہ بےپروائی سے بیٹھا آفتاب کو دیکھتا رہا یہاں تک کہ جب وہ زرد ہو گیا، اور اس کے غروب کا وقت قریب آ گیا تو نماز کو کھڑا ہوا، اور چڑیا کی طرح چار چونچیں مار کے ختم کر دی، اور اللہ کا ذکر بھی اُس میں بہت تھوڑا کیا۔ (مسلم)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ مومن کی شان تو یہ ہے کہ شوق کی بے چینی سے نماز کے وقت کا منتظر رہے، اور جب وقت آئے تو خوشی اور مستعدی سے نماز کے لیے کھڑا ہو اور یہ سمجھتے ہوئے کہ اس وقت مجھے مالک الملک کے دربارِ عالی کی حضور نصیب ہے، پورے اطمینان اور خشوع کے ساتھ نماز ادا کرے، اور قیام و قعود اور رکوع و سجود میں خوب اللہ کو یاد کرے، اور اس سے اپنے دل کو شاد کرے، لیکن منافقوں کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ وہ نماز اُن کے لیے ایک بوجھ ہوتی ہے، وقت آ جانے پر بھی اُس کو ٹالتے رہتے ہیں، مثلاً عصر کی نماز کے لیے اُس وقت اُٹھتے ہیں جب سورج بالکل ڈوبنے کے قریب ہو جاتا ہے، اور بس چڑیا کی سی چار چونچیں مار کے نماز پوری کر دیتے ہیں، اور اللہ کا نام بھی بس برائے نام ہی لیتے ہیں، پس یہ نماز منافق کی نماز ہے اور جو کوئی ایسی نماز پڑھتا ہے وہ مخلص مؤمنوں والی نہیں، بلکہ منافقوں والی نماز پڑھتا ہے۔
Top