معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 51
عَنْ أَبِىْ هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَسْرِقُ السَّارِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَشْرَبُ الْخَمْرَ حِينَ يَشْرَبُهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ» وَلَا يَنْتَهِبُ نُهْبَةً يَرْفَعُ النَّاسُ إِلَيْهِ فِيهَا أَبْصَارَهُمْ حِينَ يَنْتَهِبُهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ» وَلَا يَغُلُّ اَحَدُكُمْ حِيْنَ يَغُلُّ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَاِيَّاكُمْ اِيَّاكُمْ ۔ (رواه البخارى ومسلم)
ایمان میں خرابی ڈالنے والے اخلاق و اعمال
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نہیں زنا کرتا کوئی زناکار، جس وقت وہ زنا کرتا ہے اور وہ اس وقت مومن ہو، اور نہیں چوری کرتا کوئی چور جس وقت وہ چوری کرتا ہے اور وہ اس وقت مومن ہو، اور نہیں شراب پیتا کوئی شرابی جب کہ وہ شراب پیتا ہے اور وہ اس وقت مومن ہو، اور نہیں لُوٹتا لُوٹ کا کوئی مال کہ لوگ اُس کی طرف آنکھیں اٹھا اٹھا کر اس کی لوٹ مار کو دیکھتے ہوں جب کہ وہ لوٹتا ہے اور وہ اس وقت مومن ہو، اور نہیں خیانت کرتا کوئی خیانت کرنے والا جب کہ وہ خیانت کرتا ہے اور وہ اس وقت مومن ہو، پس (اے ایمان والو! ان منافی ایمان حرکات سے) اپنے کو بچاؤ! بچاؤ۔ (بخاری و مسلم)

تشریح
یہ حدیث بخاری و مسلم ہی میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی روایت سے بھی آئی ہے، اور اس میں زنا، چوری، شراب نوشی، لوٹ مار اور خیانت کے علاوہ قتل ناحق کا بھی ذکر ہے، یعنی اس میں ان الفاظ کا اور اضافہ ہے: "وَلَا يَقْتُلُ حِينَ يَقْتُلْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ " (یعنی نہیں قتل کرتا کوئی قتل کرنے والا کسی کو جب کہ وہ قتل کرتا ہے، اور وہ اس وقت مومن ہو)۔ (بخاری و مسلم) تشریح۔۔۔ مطلب یہ ہے کہ زنا، چوری، شراب نوشی، قتل و غارت گری، اور خیانت، یہ سب حرکتیں ایمان کے قطعاً منافی ہیں، اور جس وقت کوئی شخص یہ حرکتیں کرتا ہے اُس وقت اس کے دل مین ایمان کا نور بالکل نہیں رہتا، یہ مطلب نہیں ہے، کہ وہ اسلام کے دائرہ سے بالکل نکل کر کافروں مین شامل ہو جاتا ہے۔۔۔ خود امام بخاریؒ نے اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے: لَا يَكُوْنُ هَذَا مُؤْمِنًا تَامًّا وَلَا يَكُوْنُ لَهُ نُوْرُ الْاِيْمَانِ (صحيح البخارى كتاب الايمان) ان گناہوں کا کرنے والا جس وقت کہ یہ گناہ کرتا ہے اُس وقت وہ پورا مومن نہیں ہوتا، اور اس میں ایمان کا نور نہیں رہتا۔ اس کو یوں سمجھنا چاہئے کہ ایمان دل کی جس خاص کیفیت کا نام ہے، وہ اگر جاندار اور بیدار ہو، اور دل اُس کے نور سے روشن ہو تو ہرگز آدمی سے ایسا کوئی گناہ نہیں ہو سکتا، ایسے ناپاک گناہوں کے لیے آدمی کا قدم اس وقت اٹھ سکتا ہے جب کہ دل میں ایمان کی شمع روشن نہ ہو، اور وہ خاص ایمانی کیفیت غائب ہو گئی ہو، یا کسی وجہ سے بے جان اور مضمحل ہو گئی ہو جو آدمی کو گناہوں سے بچانے والی طاقت ہے۔ بہر حال حدیث پڑھنے والے کو یہ اصولی بات ملحوظ رکھنی چاہئے کہ اس قسم کی حدیثیں جن میں خاص خاص بداعمالیوں اور بداخلاقیوں کے متعلق فرمایا گیا ہے، کہ جو لوگ ان کے مُرتکب ہوں ان میں ایمان نہیں، یا یہ کہ وہ مومن نہیں، اور اسی طرح وہ ھدیثیں جن میں بعض اعمالِ صالحہ اور اخلاقِ حسنہ کے بارے میں فرمایا گیا ہے، کہ جو شخص ان کا تارک ہو وہ ایمان سے خالی اور بے نصیب ہے، یا یہ کہ وہ مومن نہیں ہے، ان کا مقصد و منشا یہ نہیں ہوتا کہ وہ شخص دائرہ اسلام سے بالکل نکل گیا، اور اب اس پر اسلام کے بجائے کفر کے احکام جاری ہوں گے، اور آخرت میں اس کے ساتھ ٹھیٹ کافروں والا معاملہ ہو گا، بلکہ مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ یہ شخص اُس حقیقی ایمان سے محروم اور بے نصیب ہے جو مسلمانوں کی اصلی شان ہے، اور جو اللہ کو محبوب ہے اور اس کے لیے نحوی ترکیب میں "کاملا" یا "تاما" جیسے الفاظ مقدر ماننے کی بالکل ضرورت نہین، بلکہ ایسا کرنا ایک قسم کی بدذوقی ہے، ہر زبان کا یہ عام محاورہ ہے کہ اگر کسی میں کوئی صفت بہت ناقص اور کمزور درجہ کی ہو تو اُس کو کالعدم قرار دے کر اس کی مطلق نفی کر دی جاتی ہے خاص کر دعوت و خطابت اور ترغیب و ترہیب میں یہی طرزِ بیان زیادہ موزوں، اور زیادہ مفید مطلب ہوتا ہے۔ مثلاً یہی حدیث ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے زنا اور چوری اور خونِ ناحق وغیرہ گناہوں کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ "ان کا کرنے والا جس وقت یہ ناپاک کام کرتا ہے وہ اس وقت مومن نہیں ہوتا" اگر بجائے اس کے آپ یوں فرماتے کہ "اس وقت اُس کا ایمان کامل نہیں ہوتا" تو اس میں کوئی زور اور وزن نہ ہوتا، ارو ترہیب و تخویف جو حدیث کا مقصد ہے وہ بالکل فوت ہو جاتا، یا مثلاً چند صفحے پہلے یہ حدیث گذر چکی ہے، کہ رسول اللہ ﷺ اپنے اکثر خطبات میں ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ "لَا إِيمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَةَ لَهُ، وَلَا دِينَ لِمَنْ لَا عَهْدَ لَهُ " (جس میں امانت نہیں، اُس میں ایمان نہیں، اور جس میں عہد کی پابندی نہیں اس کا دین میں حصہ نہیں) اب اگر بجائے اس کے صریح الفاظ میں یہ فرمایا جاتا کہ "جس میں امانت نہیں وہ مومن کامل نہیں اور جو عہد کا پابند نہٰں وہ پورا دیندار نہیں" تو ظاہر ہے کہ اس میں وہ زور اور اثر بالکل نہ ہوتا، جو حدیث کے موجودہ الفاظ میں ہے، بہر حال دعوت و موعظت اور انذار و ترہیب، جو ان حدیثوں کا اصل مقصد ہے اُس کے لیے یہی طرز بیان صحیح اور زیادہ موزوں و خوبصورت ہے۔ پس ان حدیثوں کو "کفر کے فتوے" اور فقہ کے "قانونی فیصلے" سمجھنا اور اس بنیاد پر ان گناہوں کے مُرتکبین کو ملّتِ اسلام سے خارج قرار دینا (جیسا کہ معتزلہ اور خوارج نے کیا ہے) ان حدیثوں کے اصل مقصد اور رسول اللہ ﷺ کے طرزِ کلام کی خصوصیات سے ناواقفی اور نا آشنائی کا نتیجہ ہے۔ (۱)
Top