معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 4
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: نُهِينَا أَنْ نَسْأَلَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَيْءٍ، فَكَانَ يُعْجِبُنَا أَنْ يَجِيءَ الرَّجُلُ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ الْعَاقِلُ، فَيَسْأَلَهُ، وَنَحْنُ نَسْمَعُ، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، أَتَانَا رَسُولُكَ فَزَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ اللهَ أَرْسَلَكَ، قَالَ: «صَدَقَ»، قَالَ: فَمَنْ خَلَقَ السَّمَاءَ؟ قَالَ: «اللهُ»، قَالَ: فَمَنْ خَلَقَ الْأَرْضَ؟ قَالَ: «اللهُ»، قَالَ: فَمَنْ نَصَبَ هَذِهِ الْجِبَالَ، وَجَعَلَ فِيهَا مَا جَعَلَ؟ قَالَ: «اللهُ»، قَالَ: فَبِالَّذِي خَلَقَ السَّمَاءَ، وَخَلَقَ الْأَرْضَ، وَنَصَبَ هَذِهِ الْجِبَالَ، آللَّهُ أَرْسَلَكَ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قَالَ: وَزَعَمَ رَسُولُكَ أَنَّ عَلَيْنَا خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي يَوْمِنَا، وَلَيْلَتِنَا، قَالَ: «صَدَقَ»، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ، آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قَالَ: وَزَعَمَ رَسُولُكَ أَنَّ عَلَيْنَا زَكَاةً فِي أَمْوَالِنَا، قَالَ: «صَدَقَ»، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ، آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قَالَ: وَزَعَمَ رَسُولُكَ أَنَّ عَلَيْنَا صَوْمَ شَهْرِ رَمَضَانَ فِي سَنَتِنَا، قَالَ: «صَدَقَ»، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ، آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قَالَ: وَزَعَمَ رَسُولُكَ أَنَّ عَلَيْنَا حَجَّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا، قَالَ: «صَدَقَ»، قَالَ: ثُمَّ وَلَّى، قَالَ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، لَا أَزِيدُ عَلَيْهِنَّ، وَلَا أَنْقُصُ مِنْهُنَّ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَئِنْ صَدَقَ لَيَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ»
ارکانِ اسلام پر جنت کی بشارت
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم کو ممانعت کر دی گئی تھی کہ رسول اللہ ﷺ سے (بلا خاص ضرورت کے) کچھ پوچھیں، تو ہم کو اس بات سے خوشی ہوتی تھی کہ کوئی سمجھدار بدوی حضرتﷺ کی خدمت میں آئے اور آپ سے کچھ پوچھے، اور ہم سنیں۔ تو ان ہی ایام میں ایک بدوی خدمتِ نبویﷺ میں حاضر ہوا، اور عرض کیا: "اے محمدﷺ! تمہارا ۳قاصد (یا مُبلغ) ہمارے پاس پہنچا تھا، اس نے ہم سے بیان کیا کہ تمہارا کہنا ہے کہ اللہ نے تم کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے؟ " حضور ﷺ نے فرمایا: "اس نے تم سے ٹھیک کہا "۔ اس کے بعد اُس بدوی نے کہا: "تو بتلاؤ کہ آسمان کس نے بنایا ہے؟" آپ ﷺ نے فرمایا "اللہ نے!" اس نے کہا: "زمین کس نے بنائی؟" آپ ﷺ نے فرمایا "اللہ نے"۔ اس نے کہا "زمین پر یہ پہاڑ کس نے کھڑے کئے ہیں، اور ان پہاڑوں میں اور جوکچھ بنا ہے وہ کس نے بنایا ہے؟" آپ ﷺ نے فرمایا: "اللہ نے!" اُ کے بعد اُس بدوی سائل نے آپ ﷺ سے کہا: "پس قسم ہے اُس ذات کی جس نے آسمان بنایا، زمین بنائی اور اس پر پہاڑ نصب کئے، کیا للہ ہی نے تم کو بھیجا ہے؟" آپ ﷺ نے فرمایا: "بےشک مجھے اللہ ہی نے بھیجا ہے "۔ پھر اس نے کہا "تمہارے اُس قاصد نے ہم سے یہ بھی بیان کیا تھا، کہ ہم پر دن رات میں پانچ نمازیں بھی فرض ہیں؟ " حضور ﷺ نے فرمایا: "یہ بھی اُس نے تم سے ٹھیک کہا!" اُس بدوی نے کہا: "تو قسم ہے آپ کے بھیجنے والے کی، کیا اللہ نے ہی آپ کو ان نمازوں کا بھی حکم دیا ہے؟" آپ ﷺ نے فرمایا: "ہاں! یہ اللہ ہی کا حکم ہے!" پھر بدوی نے کہا: "اور آپ کے قاصد نے بیان کیا تھا کہ ہمارے مالوں میں زکوٰۃ بھی مقرر کی گئی ہے؟" آپ ﷺ نے فرمایا: "یہ بھی اس نے تم سے سچ کہا!" اعرابی نے کہا: "تو قسم ہے آپ کو بھیجنے والے کی، کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم کیا ہے؟" آپ ﷺ نے فرمایا: "ہاں! یہ بھی اللہ ہی کا حکم ہے!" پھر اُس اعرابی نے کہا، کہ: "آپ ﷺ کے قاصد نے بیان کیا تھا کہ سال میں ماہ رمضان کے روزے بھی ہم پر فرض ہوئے ہیں؟" آپ ﷺ نے فرمایا: "یہ بھی اُس نے سچ کہا " اعرابی نے عرض کیا: "تو قسم ہے آپ کے بھیجنے والے کی، کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم کیا ہے؟" آپ ﷺ نے فرمایا: "ہاں! یہ بھی اللہ ہی کا حکم ہے!" اس کے بعد اعرابی نے کہا: "آپ ﷺ کے قاصد نے ہم سے یہ بھی بیان کیا، کہ ہم میں سے جو حج کے لئے مکہ پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو، اُس پر بیت اللہ کا حج بھی فرض ہے؟" آپ ﷺ نے فرمایا: "ہاں! یہ بھی اس نے سچ کہا " (راوی کا بیان ہے کہ) یہ سوال و جواب ختم کر کے وہ اعرابی چل دیا، اور چلتے ہوئے اُس نے کہا: "اُس ذات کی قسم! جس نے آپ (ﷺ) کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، میں ان میں نہ کوئی زیادتی کروں گا اور نہ کوئی کمی"۔ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا "اگر یہ صادق ہے، تو ضرور جنت میں جائے گا"۔

تشریح
شروع حدیث میں "سوال کی ممانعت" کا جو ذکر آیا ہے، اُس کا اشارہ قرآن پاک کی آیت: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ " کی طرف ہے، بات یہ ہے کہ نئے نئے سوالات کرنا انسان کی فطرت ہے، لیکن اس عادت کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ طبائع کا رجحان موشگافیوں ہی کی طرف زیادہ بڑھ جاتا ہے، اور ان میں باتوں کی کھود کرید زیادہ پیدا ہو جاتی ہے، اور عمل اسی نسبت سے کم، نیز اس میں وقت بھی ضائع ہوتا ہے، اور بالخصوص پیغمبرِ وقت سے زیادہ سوال کرنے میں ایک خرابی یہ بھی ہوتی ہے کہ اُس کی جانب سے جواب ملنے کے بعد اُمت کی پابندیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے، غرض ان ہی وجوہ سے غیر ضروری سوالات کرنے کی صحابہ کرامؓ کو بھی ممانعت فرما دی گئی تھی جس کے بعد وہ بہت ہی کم سوال کرتے تھے، اور اس کے آرزو مند رہا کرتے تھے، کہ کوئی بدوی آئے اور وہ آپ سے کچھ پوچھے، تو ہم کو بھی کچھ سننے کو مل جائے، کیوں کہ بے چارے بدویوں کے لیے حضور ﷺ کے یہاں بڑی وسعت تھی، اور اسی حدیث کی ایک روایت حضرت انسؓ ہی کی یہ تصریح بھی اس بارے میں مروی ہے کہ "بدوی آپ کے یہاں سوالات میں بڑے جری تھے، اور جو چاہتے تھے بے دھڑک پوچھتے تھے"۔ (فتح الباری بحوالہ صحیح ابی عوانہ) صحیح بخاری کی اسی حدیث کی روایت میں ہے کہ آخر میں چلتے ہوئے سائل نے یہ بھی بتلایا کہ میں قبیلہ بنی سعد بن بکر کا ایک فرد ہوں میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے، اور میں اپنی قوم کی طرف سے نمائندہ ہو کر آیا ہوں۔ نیز بخاری ہی کی روایت میں ہے کہ اُنہوں نے آ کر پہلے ہی آنحضرتﷺ سے عرض کر دیا تھا کہ: إِنِّي سَائِلُكَ فَمُشَدِّدٌ عَلَيْكَ فِي المَسْأَلَةِ، فَلاَ تَجِدْ عَلَيَّ فِي نَفْسِكَ؟ فَقَالَ: «سَلْ عَمَّا بَدَا لَكَ» میں آپ سے کچھ سوالات کرنا چاہتا ہوں، مگر سوال میں میرا رویہ سخت ہو گا تو آپ مجھ پر خفا نہ ہوں، حضور ﷺ نے فرمایا کہ "پوچھو جو تمہارے جی میں آئے"۔ اس کے بعد وہ سوال و جواب ہوئے جو حدیث میں مذکور ہوئے۔ اس سائل نے چلتے ہوئے آخر میں قسم کھا کر جو یہ کہا کہ: لَا أَزِيدُ عَلَيْهِنَّ، وَلَا أَنْقُصُ مِنْهُنَّکہ میں ان میں کوئی کمی بیشی نہیں کروں گا۔ تو غالباً اس کا مطلب یہی تھا کہ میں آپ کی اس تعلیم و ہدایت کا پورا پورا اتباع کروں گا اور اپنی طبیعت اور اپنے جی سے اُس میں کوئی زیادتی کمی نہیں کروں گا، اور دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میں آپ کا یہ پیغام جوں کا توں ہی پانے اپنی قوم کو پہنچاؤں کا، اور اپنی طرف سے اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کروں گا۔ دوسری روایت میں ہے کہ انہون نے اپنی قوم میں پہنچ کر بڑے جوش اور سرگرمی کےساتھ تبلیغ شروع کی، بُت پرستی کے خلاف اتنی کھل کر تقریریں کیں کہ اُن کے بعض عزیزوں نے ان سے کہا کہ: يَا ضِمَامُ، اتَّقِ الْبَرَصَ وَالْجُذَامَ، اتَّقِ الْجُنُونَ اے ضمام! برص، کوڑھ اور جنون سے ڈر (دیوتاؤں کی مخالفت سے کہیں تو کوڑھی اور دیوانا نہ بن جائے)۔ مگر اللہ پاک نے ان کی تبلیغ میں اتنی برکت دی کہ صبح کو جو لوگ ضمام کو کوڑھ اور دماغ کی خرابی سے ڈرا رہے تھے شام کو وہ بھی بُت پرستی سے بیزار اور توحید کے حلقہ بگوش ہو گئے، اور سارے قبیلے میں ایک متنفس بھی غیر مومن نہیں رہا۔ فَرَضَى اللهُ عَنْهُمْ وَعَنَّا اَجْمَعِيْنَ۔
Top