معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 44
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا مِنْ نَبِيٍّ بَعَثَهُ اللهُ فِي أُمَّةٍ قَبْلِي إِلَّا كَانَ لَهُ مِنْ أُمَّتِهِ حَوَارِيُّونَ، وَأَصْحَابٌ يَأْخُذُونَ بِسُنَّتِهِ وَيَقْتَدُونَ بِأَمْرِهِ، ثُمَّ إِنَّهَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِهِمْ خُلُوفٌ يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ، وَيَفْعَلُونَ مَا لَا يُؤْمَرُونَ، فَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِيَدِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِلِسَانِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِقَلْبِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَيْسَ وَرَاءَ ذَلِكَ مِنَ الْإِيمَانِ حَبَّةُ خَرْدَلٍ» (رواه مسلم)
ایمان کے تکمیلی عناصر اور خاص شرائط و لوازم
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اللہ نے جو پیغمبر بھی مجھ سے پہلے کس امت میں بھیجا تو اس کے کچھ حواری اور لائق اصحاب ہوتے تھے، جو اس کے طریقے پر چلتے، اور اس کے حکم کی پیروی کرتے تھے، پھر ایسا ہوتا تھا کہ ان کے نالائق پسماندگان ان کے جانشین ہوتے تھے، اور ان کی حالت یہ ہوتی تھی کہ وہ کہتے تھے اور خود وہ کام نہیں کرتے تھے، یا مطلب یہ ہے کہ کرنے کے جو کام، وہ نہیں کرتے تھے ان کے متعلق لوگوں سے کہتے تھے، کہ ہم کرتے ہیں، گویا اپنی مشخییت اور اپنا تقدس قائم رکھنے کے لیے وہ جھوٹ بھی بولتے اور جن کاموں کا ان کو حکم نہیں دیا گیا تھا، ان کو کرتے تھے (یعنی اپنے پیغمبر کی سنتوں اور اس کے اوامر و احکام پر تو وہ عامل نہ تھے، مگر وہ معصیات و بدعات جن کا ان کو حکم نہیں دیا گیا تھا ان کو خوب کرتے تھے) تو جس نے ان کے خلاف اپنے دست و بازو سے جہاد کیا وہ مومن ہے، اور جس نے (بدرجہ مجبوری) صرف زبان ہی سے ان کے خلاف جہاد کیا وہ بھی مومن ہے، اور جس نے (جہاد باللسان سے بھی عاجز رہ کر) صرف دل ہی سے ان کے خلاف جہاد کیا (یعنی دل میں ان سے نفرت کی اور ان کے خلاف غیظ و غضب رکھا) تو وہ بھی مومن ہے، لیکن اسکے بغیر رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان نہیں ہے"۔

تشریح
حدیث کا مطلب اور اس کی روح یہی ہے کہ انبیاءؑ اور بزرگان دین کے جانشینوں اور نام لیواؤں میں جو غلط کار اور بدکردار ہوں، جو دوسروں کو تو اعمالِ خیر کی دعوت دیتے ہوں، لیکن خود بےعمل اور بد عمل ہوں، ان کے خلاف حسبِ استطاعت ہاتھ سے یا زبان سے جہاد کرنا اور کم از کم دل میں اس جہاد کا جذبہ رکھنا ایمان کے خاص شرائط اور لوازم میں سے ہے، اور جو شخص اپنے دل میں بھی اس جہاد کا جذبہ نہ رکھتا ہو، اس کا دل ایمان کی حرارت اور اس کے سوز سے گویا بالکل ہی خالی ہے۔۔۔ لَيْسَ وَرَاءَ ذَلِكَ مِنَ الْإِيمَانِ حَبَّةُ خَرْدَلٍ کا یہی مطلب ہے، اور اگلی حدیث میں اسی کو "أَضْعَفُ الْإِيمَانِ" (ایمان کا ضعیف ترین درجہ) فرمایا گیا ہے۔ ملحوظ رہے کہ اس حدیث میں انبیاء علیہم السلام اور بزرگانِ دین کے ناخلف اور نالائق جانشینوں کے خلاف جہاد کا جو حکم ہے، اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ان کو درست کرنے کی اور صحیح راستے پر لانے کی کوشش کی جائے اور اگر اس سے مایوسی ہو تو ان کے برے اثرات سے اللہ کے بندوں کو بچانے کے لئے ان کی جھوٹی مشخیت اور ان کے موروثی اثر و اقتدار کو ختم کرنے کی جدو جہد کی جائے۔
Top