معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 34
عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ، حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ» (رواه البخارى و مسلم)
ایمان کے تکمیلی عناصر اور خاص شرائط و لوازم
حضرت انسؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا، جب تک کہ اپنے بھائی کے لیے وہی نہ چاہے جو اپنے لیے چاہتا ہے"۔ (بخاری و مسلم)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ ایمان کے اصل مقام تک پہنچنے کے لیے اور اس کی خاص برکتیں حاصل کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ آدمی خود غرضی سے پاک ہو اور اس کے دل میں اپنے دوسرے بھائیوں کے لیے اتنی خیر خواہی ہو، کہ جو نعمت اور جو بھلائی اور بہتری وہ اپنے لیے چاہے، وہی دوسرے بھائیوں کے لیے بھی چاہے اور جو بات اور جو حال وہ اپنے لیے پسند نہ کرے، اس کو کسی دوسرے کے لیے بھی پسند نہ کرے، اس کے بغیر ایمان کامل نہیں ہو سکتا۔ اسی حدیث میں ابن حبان کی روایت میں "لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ" کی جگہ "لاَ يَبْلُغُ الْعَبْدُ حَقِيْقَةَ الْاِيْمَان" روایت کیا گیا ہے، اس سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ اس حدیث میں اور اس جیسی دوسری حدیثوں میں بھی "لاَ يُؤْمِنُ" کے لفظ سے ایمان کی قطعی نفی مراد نہیں ہے، بلکہ کمال کی نفی مقصود ہے۔ اور اس طرح ناقص کو کالمعدوم قرار دے کر اس کی نفی کر دینا قریباً ہر زبان کا عام محاورہ ہے، مثلاً ہماری اردو زبان میں بھی کسی برے اور غلط آدمی کے متعلق کہہ دیا جاتا ہے کہ "اس میں تو انسانیت ہی نہیں ہے" یا کہہ دیتے کہ "وہ سرے سے آدمی ہی نہیں ہے"۔ حالانکہ مطلب یہی ہوتا ہے کہ وہ اچھا اور معقول آدمی نہیں ہے۔ پس اسی طرح بہت سی حدیثوں میں بھی ایمان کے نقص کو "لاَ إِيْمَانَ" یا "لاَ يُؤْمِنُ" کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور تربیت و نصیحت (جو ان حدیثوں کا مقصد ہے) اُس کے لیے یہی طرزِ بیان مناسب تر اور بہتر بھی ہے۔۔۔ ایسے موقع پر منطقیوں والی موشگافیاں کرنا مزاجِ نبوت سے نا آشنائی کی دلیل اور بڑی ہی بد ذوقی کی بات ہے۔
Top