معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 32
عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ» (رواه البخارى ومسلم)
ایمان کے تکمیلی عناصر اور خاص شرائط و لوازم
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا، جب تک کہ اس کو اپنے ماں باپ، اپنی اولاد اور سب لوگوں سے زیادہ میری محبت نہ ہو۔ (بخاری و مسلم)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ ایمان کی تکمیل جب ہی ہو سکتی ہے اور ایک مسلمان پورا مومن تب ہی ہو سکتا ہے، کہ دنیا کے تمام دوسرے آدمیوں سے حتیٰ کہ اپنے ماں باپ، اور اپنی اولاد سے بھی زیادہ اس کو رسول اللہ ﷺ کی محبت ہو۔ اس سے پہلی حدیث میں تمام ما سوا سے زیادہ اللہ و رسول کی محبت اور اسلام کی محبت کو "حلاوت ایمانی" حاصل ہونے کی شرط بتلایا گیا تھا، اور اس حدیث میں صرف رسول اللہ ﷺ کی محبت کا ذکر فرمایا گیا ہے۔۔۔ بات یہ ہے کہ اللہ و رسول کی اور اسلام کی محبت میں باہم ایسا تعلق ہے کہ یہ ایک دوسرے سے الگ ہو کر ہرگز نہیں پائی جا سکتیں، اللہ تعالیٰ سے اور اسلام سے صحیح محبت بغیر رسول کی محبت کے ناممکن ہے، اور اسی طرح اللہ کی اور اسلام کی محبت کے بغیر رسول اللہ ﷺ کی محبت کو تصور نہیں کیا جا سکتا، کیوں کہ اللہ کے رسول سے جو محبت بحیثیت رسول کے ہو گی، وہ درحقیقت اللہ ہی کی وجہ سے اور اللہ ہی کے تعلق سے ہو گی، اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ اسلام سے بھی پوری محبت ہو گی، اس لیے اس حدیث میں کمالِ ایمان کی شرط کے طور پر صرف رسول اللہ ﷺ کی محبت کا ذکر کر دیا گیا ہے لیکن مطلب وہی ہے کہ ایمانی انوار و برکات صرف اُن ہی خوش نصیبوں کو حاصل ہو سکتے ہیں، جن کے دلوں پر اللہ و رسول کی اور اسلام کی محبت کا ایسا غلبہ ہو کہ دوسری تمام محبتیں اس سے دبی ہوئی ہوں۔ ان حدیثوں میں اللہ و رسول کی محبت کا جو مطالبہ کیا گیا ہے، اس کی مراد متعین کرنے میں شارحین حدیث کا کلام کچھ مختلف سا ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کے لیے ان کا مطلب و مقصد سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے، حالانکہ جو حقیقت ان حدیثوں میں بیان کی گئی ہے وہ بالکل صاف اور سادہ ہے، محبت ایک معروف لفظ ہے، اور اس کے معنی بھی معروف و معلوم ہیں، اور وہی یہاں بھی مراد ہیں، البتہ اللہ و رسول کے ساتھ اہل ایمان کو جو محبت ہوتی ہے وہ ماں باپ اور بیوی بچوں کی محبت کی طرح خونی رشتوں یا دوسرے طبعی اسباب کی وجہ سے نہیں ہوتی، بلکہ وہ روحانی اور عقلی وجہ سے ہوتی ہے، اور جب وہ کامل ہو جاتی ہے تو اس کے سوا دوسری وہ تمام محبتیں جو طبعی یا نفسانی اسباب کی وجہ سے ہوتی ہیں اس سے مغلوب ہو جاتی ہیں، اور اس بات کو ہر وہ شخص سمجھ سکتا ہے، جس کو اللہ نے اس کا کوئی حصہ نصیب فرمایا ہو۔ الغرض ان احادیث میں محبت سے مراد دل کی وہی خاص کیفیت ہے جس کو محبت کے لفظ سے ادا کیا جاتا ہے، اور اسی کا ہم سے مطالبہ ہے، اور وہی گویا ہمارے ایمان کی جان ہے، قرآن مجید میں بھی فرمایا گیا ہے کہ: وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ١ؕ ایمان والے سب سے زیادہ محبت اللہ تعالیٰ سے کرتے ہیں۔(بقرہ: ۲، ۱۶۵) اور دوسری جگہ فرمایا گیا ہے: قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِيْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ ا۟قْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِيْ سَبِيْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى يَاْتِيَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَؒ۰۰۲۴ اے پیغمبر! آپ ان لوگوں سے صاف صاف کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے ماں باپ، تمہاری اولاد، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، اور تمہارا کنبہ، قبیلہ اور تمہارا وہ مال و دولت جس کو تم نے محنت سے کمایا ہے، اور تمہاری وہ چلی ہوئی تجارت جس کی کسد بازاری سے تم ڈرتے ہو، اور تمہارے رہنے کے وہ اچھے مکانات جو تم کو پسند ہیں (پس اگر دنیا کی یہ محبوب و مرغوب چیزیں) اللہ، اللہ کے رسول اور اللہ کے دین کی راہ کی جدو جہد سے زیادہ تم کو محبوب ہیں، تو انتظار کرو، تا آنکہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم اور فیصلہ نافذ کرے، اور یاد رکھو کہ اللہ نافرمان قوم کو ہدایت نہیں دیتا ہے۔ (توبہ ۲۴:۹) پس قرآن مجید کی اس پُر جلال آیت کا تقاضا اور مطالبہ بھی یہی ہے کہ ایمان والوں کو اپنی تمام قابلِ محبت چیزوں سے زیادہ، اللہ و رسول کی اور اس کے دین کی محبت ہونی چاہیے! اس کے بغیر اللہ کی رضا اور اس کی خاص ہدایت حاصل نہیں ہو سکتی، اور ایمان کامل نہیں ہو سکتا۔ کھلی ہوئی بات ہے کہ جس کو یہ دولت نصیب ہو جائے اس کے لیے ایمان کے سارے تقاضوں کا پورا کرنا اور اللہ و رسول کے احکام پر چلنا نہ صرف یہ کہ آسان ہو جاتا ہے بلکہ اس راہ میں جانِ عزیز تک دے دینے میں بھی وہ ایک لذت محسوس کرے گا، اور اس کے برخلاف جس کے دل پر اللہ و رسول کی محبت کا ایسا غلبہ نہ ہو گا، اس کے لیے روز مرہ کے اسلامی فرائض کی ادائیگی اور عام ایمانی مطالبات کی تعمیل بھی سخت گراں اور بڑی کٹھن ہو گی اور جتنا کچھ وہ کرے گا بھی، تو اُس کی حیثیت زیادہ سے زیادہ بس قانونی پابندیاں کی سی ہو گی، پس اسی لیے فرمایا گیا ہے کہ، جب تک اللہ و رسول کی محبت دوسری ساری چاہتوں اور محبتوں پر غالب نہ ہو جائے، ایمان کا اصل مقام نصیب نہیں ہو سکتا، اور ایمان کی حلاوت حاصل نہیں ہو سکتی۔
Top