معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 27
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ثَلَاثٌ مِنْ أَصْلِ الْإِيمَانِ: الْكَفُّ عَمَّنْ، قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَلَا نُكَفِّرُهُ بِذَنْبٍ، وَلَا نُخْرِجُهُ مِنَ الْإِسْلَامِ بِعَمَلٍ، وَالْجِهَادُ مَاضٍ مُنْذُ بَعَثَنِي اللَّهُ إِلَى أَنْ يُقَاتِلَ آخِرُ أُمَّتِي الدَّجَّالَ لَا يُبْطِلُهُ جَوْرُ جَائِرٍ، وَلَا عَدْلُ عَادِلٍ، وَالْإِيمَانُ بِالْأَقْدَارِ (رواه ابو داؤد)
مسلمان کسی گناہ اور بدعملی کی وجہ سے کافر نہیں ہو جاتا
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "تین باتیں اصولِ اسلام میں داخل ہیں: ایک یہ کہ جو شخص کلمہ لا الہ الا اللہ کا قائل ہو، اس کے بارے میں زبان کو روکا جائے، یعنی کسی گناہ کی وجہ سے اُس کی تکفیر نہ کی جائے، اور کسی بدعملی کی وجہ سے اُس کو خارج از اسلام قرار نہ دیا جائے۔۔۔ دوسری چیز (اصولِ اسلام میں سے) جہاد ہے، وہ اُس وقت سے جاری ہے، جب مجھے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا، اور اُس آخری زمانہ تک جاری رہے گا، جب کہ اس اُمت کا آخری طبقہ دجال سے جنگ کرے گا (مسلمانوں کے حکمراں خواہ ظالم ہوں یا منصف، جہاد بہر حال جاری رہے گا) کسی ظالم حکومت کا ظلم اور عادل حکمران کا عدل اس کو ختم نہیں کرے گا، اور (اصولِ اسلام میں سے تیسری چیز) تقدیر پر ایمان لانا ہے"۔ (ابو داؤد)

تشریح
اس حدیث میں تین باتوں کو اصولِ اسلام میں سے بتلایا گیا ہے، اول یہ کہ کسی گناہ اور بدعملی کی وجہ سے کسی ایسے شخص کی تکفیر نہ کی جائے، اور اس کے خارج از اسلام ہونے کا فتویٰ نہ دیا جائے، جو کلمہ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کا قائل ہو۔ اس کے بارے میں ایک بات تو یہ ملحوظ رکھنے کی ہے کہ کلمہ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کے قائل ہونے کا مطلب وہی ہے جو پہلے بھی بار بار بیان کیا جا چکا ہے، یعنی رسول اللہ ﷺ کی دینی دعوت کو قبول کر کے مسلمان ہو جانا، پہلے بتلایا جا چکا ہے کہ عہدِ نبوی میں کلمہ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کا قائل ہو جانا، اسلام قبول کر لینے کا عنوان تھا، خود ہماری زبان اُردو میں بھی اسی محاورہ کے مطابق "کلمہ پڑھ لینے" مطلب اسلام قبول کر لینا سمجھا جاتا ہے۔ دوسری بات یہاں یہ قابلِ لحاظ ہے کہ اس حدیث میں کسی گناہ اور بدعملی کی وجہ سے "کلمہ گو" کی تکفیر سے منع فرمایا گیا ہے، گویا رسول اللہ ﷺ نے اپنے اس ارشاد کے ذریعے امت کو اس غلطی اور گمراہی سے بچانے کی کوشش فرمائی ہے، جس میں معتزلہ اور خوارج مبتلا ہوئے، وہ صرف معاصی اور بد اعمالیوں کی بناء پر بھی آدمی کو اسلام کو سے خارج قرار دیتے ہین، اور اہل سنت کا مسلک اس حدیث نبوی کے مطابق یہی ہے کہ کوئی مسلمان صرف اپنی بدعملی اور اپنے معاصی کی وجہ سے اسلام سے نہیں نکلتا اور کافر نہیں ہو جاتا۔ الغرض حدیث کے اس جز کا مقصد و مدعا یہی ہے، کہ جب ایک شخص کلمہ پڑھ کر ایمان لے آیا، اور اسلام کو اس نے اپنا دین بنا لیا، تو اس کے بعد اگر اس سے گناہ سرزد ہوں، اور وہ بد اعمالیوں میں مبتلا دیکھا جائے تو صرف عمل کی اس خرابی کی وجہ سے اس کو کافر اور خارج از اسلام نہ قرار دیا جائے، پس ایسے لوگوں سے اس حدیث کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے، جو کسی ایسی چیز کا انکار کر کے خود ایمان و اسلام کے دائرے سے نکل جائیں جس پر ایمان لانا مسلمان ہونے کی شرط ہے۔ فرض کیجئے کہ کوئی شخص جو کلمہ پڑھ چکا ہے، اور اپنے کو مسلمان کہتا ہے، قرآن مجید کے کتاب اللہ ہونے سے منکر ہے، یا قیامت اور آخرت کا انکار کرتا ہے، یا خدائی کا یا نبوت کا دعویدار ہے، تو ظاہر ہے کہ وہ مسلمان نہیں رہے گا، اور اس کو لازماً کافر اور خارج از اسلام قرار دیا جائے گا۔ لیکن یہ تکفیر کسی بدعملی اور فسق و فجور کی وجہ سے نہ ہو گی، بلکہ اصولِ دین کے انکار کی وجہ سے ہو گی۔ بہر حال ان دونوں صورتوں میں جو فرق ہے وہ ملحوظ رہنا چاہئے، بعض لوگ اس فرق کو ملحوظ نہ رکھنے کی وجہ سے اس حدیث کو بہت غلط استعمال کرتے ہیں۔ اس حدیث میں جہاد کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ: میری بعثت سے لے کر وہ اس وقت تک جاری رہے گا جب کہ میری اُمت کا آخری طبقہ دجال کے خلاف جہاد کرے گا، کسی ظالم کا ظلم اور منصف کا عدل و انصاف اسکو ختم نہیں کرے گا۔ اس آخری فقرہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی وقت مسلمانوں کی حکومت کا نظام غلط ہاتھوں میں ہو اور حکمران غلط قسم کے اور ظالم ہوں، تب بھی جہاد ساقط نہ ہو گا اور کسی کے لئے یہ عذر کرنا صحیح نہ ہو گا کہ ہم ان غلط کار حاکموں کی ماتحتی میں جہاد نہیں کریں گے، بلکہ حکومت پر تسلط خواہ اچھوں کا ہو یا بُروں گا بہر حال ان کی ماتحتی میں جہاد کرنا ہو گا۔
Top