معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 26
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ صَلَّى صَلاَتَنَا وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا، وَأَكَلَ ذَبِيحَتَنَا فَذَلِكَ المُسْلِمُ الَّذِي لَهُ ذِمَّةُ اللَّهِ وَذِمَّةُ رَسُولِهِ، فَلاَ تُخْفِرُوا اللَّهَ فِي ذِمَّتِهِ (رواه البخارى)
ایمان و اسلام کی چند ظاہری نشانیاں
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جو کوئی ہماری سی نماز پڑھے، اور ہمارے قبلہ کی طرف رُخ کرے، اور ہمارا ذبیحہ کھائے، پس یہ وہ مسلم ہے جس کے لئے اللہ کی امان ہے اور اللہ کے رسول کی امان ہے، سو تم اللہ کے عہد نہ توڑو، اس کی امان کے بارے میں "۔ (بخاری)

تشریح
اس حدیث کا مقصد سمجھنے کے لئے یہ حقیقت پیشِ نظر رکھ لینی چاہئے، کہ حضور ﷺ کے عہدِ مسعود میں جب دعوتِ اسلام طاقت اور قوت کے ساتھ بڑی تیزی سے بڑھتی جا رہی تھی، تو بکثرت ایسے واقعات پیش آتے تھے کہ بعض لوگ اسلام قبول کر لیتے تھے، لیکن خاص حالات میں ان کے متعلق اس شبہ کی گنجائش رہتی تھی، کہ شاید انھوں نے حقیقی طور پر اور دل سے اسلام کو اختیار نہیں کیا ہے، پس رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد کا خاص تعلق ایسے ہی لوگوں سے ہے، اور آپ کا مقصد صحابہ کرامؓ کو یہ جتلانا ہے، کہ جس شخص میں تم اسلام قبول کرنے کی یہ ظاہری اور موٹی موٹی علامتیں دیکھو، کہ وہ اسلامی طریقے پر نماز پڑھتا ہے، اور نماز میں قبلہ مسلمین کی طرف ہی رُخ کرتا ہے، اور اہل اسلام کا ذبیحہ کھاتا ہے، تو اس کو مسلمان ہی سمجھو، اور اس کے جان و مال کو اللہ اور اس کے رسول کی امان میں سمجھو، یعنی خواہ مخواہ اس قسم کی کسی بدگمانی کی بناء پر کہ اس کے دل میں اسلام نہیں ہے، بلکہ اس نے صرف منافقانہ طور پر ان اسلامی شعائر کو اختیار کر لیا ہے، اس کے خلاف کوئی اقدام نہ کرو، بہر حال اس حدیث کا مقصد اسی بارے میں مسلمانوں کو تنبیہ کرنا ہے۔ پس بعض لوگوں کا اس حدیث سے یہ نتیجہ نکالنا مقصدِ حدیث سے ناواقفی اور سخت جاہلانہ گمراہی ہے کہ جس شخص میں اسلام کی یہ ظاہری علامتیں موجود ہوں (یعنی نماز پڑھنا، قبلہ کی طرف رُخ کرنا اور مسلمانوں کا ذبیحہ کھانا) پھر خواہ وہ کیسے ہی خلافِ اسلام عقائد و خیالات رکھے، اور خواہ کیسے ہی کافرانہ و مشرکانہ اعمال کرے، بہر حال وہ مسلمان ہی رہتا ہے۔ دراصل اس قسم کے لوگوں سے اس حدیث کا کوئی تعلق نہیں ہے، اور ایسے لوگوں کو مسلمان قرار دینے کا مطلب تو یہ ہو گا کہ اسلام صرف ان ظاہری اعمال اور علامات ہی کا نام ہے، اور ایمان و اعتقاد کی اس میں کوئی اہمیت ہی نہیں ہے، اور ظاہر ہے کہ اسلام کے بارے میں اس سے زیادہ جہالت اور گمراہی کی بات اور کوئی نہیں ہو سکتی۔
Top