معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 22
عَنْ عُمَرَ قَال۔ قَالَ رسول الله ْﷺ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَمَنْ قَالَ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَقَدْ عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ وَنَفْسَهُ إِلَّا بِحَقِّهِ، وحسابه على اللَّهُ (رواه البخاري ومسلم)
ایمان لانے کے بعد جوجان و مال معصوم و محفوظ ہو جاتے ہیں
حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "مجھے حکم ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ جاری رکھوں جب تک کہ وہ "لا الہ الا اللہ " کے قائل نہ ہو جائیں، پس جو شخص "لا الہ الا اللہ" کا قائل ہو گیا اس نے اپنے مال اور اپنی جان کو محفوظ کر لیا، سوائے اس کے حق کے اور اس کا حساب اللہ کے سپرد ہے "۔ (بخاری و مسلم)

تشریح
حضرت عمرؓ سے اس حدیث کی روایت اس مکالمہ کے ضمن میں آتی ہے جو رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد ادائیگی زکوٰۃ سے انکار کرنے والے بعض قبائل کے خلاف جنگ کرنے کے بارے میں اُن کے اور حضرت ابو بکر صدیقؓ کے درمیان ہوا تھا۔ اس حدیث میں بھی "لا الہ الا اللہ" کہنے سے مراد، دعوتِ اسلام کا قبول کرنا ہے، اور جس طرح مذکورہ سابق احادیث میں اسلام قبول کرنے کا اُخروی نتیجہ عذابِ دوزخ سے نجات اور حصول جنت بتایا گیا ہے، اسی طرح اس حدیث میں قبول اسلام کا ایک دنیوی اور قانون نتیجہ جان و مال کا محفوظ و مامون ہو جانا بتلایا گیا ہے۔ نیز اس حدیث میں آنحضرتﷺ نے اسلامی جنگ کے متعلق ایک نہایت اہم اور اصولی اعلان بھی فرمایا ہے، اور وہ یہ کہ ہماری جنگ کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں، کہ اللہ کے بندوں کو اس کی بندگی کے رستے پر لگایا جائے، اور اُن کو عذابِ ابدی سے نجات دلائی جائے، لہذا جو کوئی اللہ کے دین کو قبول کر لے، اور اللہ ہی کی بندگی کا اقرار کر کے اس کے مقرر کئے ہوئے طریقہ زندگی (دینِ اسلام) کو اپنا دین بنا لے، اس کے جان و مال کو ہماری طرف سے بالکل امن ہے۔ "إِلَّا بِحَقِّهِ" کا مطلب یہ ہے کہ البتہ اگر اس نے اسلام اختیار کرنے کے بعد کوئی ایسا جُرم کیا، کہ خود اللہ کے قانون کا تقاضا اس کو جانی یا مالی سزا دینے کا ہوا، تو خدا وندی حکم کے مطابق اس کو سزا دی جائے گی، اور "لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ" کہنے اور مسلمان کہلانے کی وجہ سے وہ اس قانونی سزا سے نہیں بچ سکے گا۔ "وحسابه على اللَّهُ" کا مطلب یہ ہے، کہ جو شخص کلمہ اسلام پڑھ کے اپنا ایمان لانا ہمارے سامنے ظاہر کرے گا، ہم اس کو مومن اور مسلم تسلیم کر کے اس کے خلاف جنگ بند کر دیں گے، اور اس کے ساتھ ایمان و اسلام ہی کا معاملہ کریں گے، لیکن اگر فی الواقع اس کی نیت میں کوئی بُرائی اور اس کے دل میں کوئی کھوٹ ہو گی، تو اس کا حساب آخرت میں اللہ تعالیٰ پر ہے، جو عَالِمُ الْغَيْبِ اور عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ہے، وہ ہی اس سے حساب کر لے گا۔ رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث قریب قریب انہی الفاظ میں صحیح مسلم میں حضرت جابرؓ اور طارق اشجعیؓ سے بھی روایت کی گئی ہے، اور بعض دوسرے صحابہ کرامؓ نے اس مضمون کو کسی قدر تفصیل سے بھی روایت کیا ہے، جس سے اس حدیث کے مضمون کی بھی اور زیادہ وضاحت ہو جاتی ہے، ہم اُن میں سے بعض روایات ذیل میں درج بھی کرتے ہیں۔
Top