معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 21
عَنْ أَبِىْ سَعِيدٍ الخُدْرِيَّ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِذَا أَسْلَمَ العَبْدُ فَحَسُنَ إِسْلاَمُهُ، يُكَفِّرُ اللَّهُ عَنْهُ كُلَّ سَيِّئَةٍ كَانَ زَلَفَهَا، وَكَانَ بَعْدَ ذَلِكَ القِصَاصُ: الحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ، وَالسَّيِّئَةُ بِمِثْلِهَا إِلَّا أَنْ يَتَجَاوَزَ اللَّهُ عَنْهَا (رواه البخارى)
اسلام لانے سے پچھلے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ فرماتے تھے، کہ: "جب بندہ اسلام قبول کر لیتا ہے اور اس کا اسلام اچھا ہوتا ہے، تو جو برائیاں اس نے پہلے کی ہوتی ہیں، اللہ اسلام کی برکت سے ان سب کو معاف کر دیتا ہے اور اس کے بعد اس کی نیکیوں اور بدیوں کا حساب یہ رہتا ہے کہ ایک نیکی پر دس گنے سے لیکر سات سو گنے تک ثواب دیا جاتا ہے اور برائی کرنے پر وہ اسی ایک بُرائی کی سزا کا مستحق ہوتا ہے۔ الا یہ کہ اللہ تعالیٰ اس سے بھی درگزر فرمائے اور معاف ہی فرما دے"۔ (بخاری)

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کے دین (اسلام) کو اپنا دین بنانے سے، اور مسلمان ہو جانے سے پچھلے گناہ معاف ہونے کی یہ شرط ہے کہ اسلام کا حسن بھی زندگی میں آ جائے (یعنی اس کا قلب و باطن نورِ اسلام سے منور اور قالب و ظاہر اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری سے مُزین اور آراستہ ہو جائے۔) "فَحسُن اِسْلَامُهُ" کا یہی مطلب ہے، پس اگر کسی شخص کی زندگی اسلام میں آ جانے کے بعد بھی نورِ اسلام اور اسلام کے حسن سے خالی رہی، اور اس کے ظاہر و باطن پر اسلام کا رنگ نہیں چڑھا، تو پچھلے سب گناہوں سے معافی کا یہ اعلان اُس کے لئے نہیں ہے۔ اسی طرح یہ بھی اس حدیث سے معلوم ہوا، کہ ایک نیکی کا ثواب دس گنے سے سات سو گنے تک دئیے جانے کا انعامی قانون بھی اُنہی بندوں کے لئے ہے جنہوں نے اسلام کا کچھ حسن اپنے اندر پیدا کر لیا ہو، اور اس حسن کی کمی بیشی کے حساب سے ہی نیکیوں کا ثواب دس گنے سے سات سو گنے تک ملے گا۔
Top