معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 19
عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مِنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَكَانَ فِي قَلْبِهِ مِنَ الْخَيْرِ مَا يَزِنُ شَعِيرَةً، ثُمَّ يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مِنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَكَانَ فِي قَلْبِهِ مِنَ الْخَيْرِ مَا يَزِنُ بُرَّةً، ثُمَّ يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مِنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَكَانَ فِي قَلْبِهِ مِنَ الْخَيْرِ مَا يَزِنُ ذَرَّةً (رواه البخارى ومسلم واللفظ له)
سچا ایمان و اسلام نجات کی ضمانت ہے
حضرت انسؓ سے مروی ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "دوزخ میں سے وہ سب لوگ نکال لئے جائیں گے جنہوں نے "لا الہ الا اللہ" کہا، اور ان کے دل میں جَو کے دانے کے برابر بھی بھلائی تھی، پھر وہ لوگ بھی نکال لئے جائیں گے جنہوں نے "لا الہ الا اللہ" کہا اور ان کے دل میں گیہوں کے دانے برابر بھی بھلائی تھی اور اس کے بعد وہ لوگ بھی نکلا لئے جائیں گے جنہوں نے "لا الہ الا اللہ" کہا، اور ان کے دل میں ذرہ برابر بھی بھلائی تھی"۔

تشریح
کے علاوہ حضرت ابو بکرؓ اور حضرت ابو موسیٰ وغیرہ متعدد صحابہ کرامؓ سے روایت کیا گیا ہے، بہر حال فنِ حدیث کی معرفت اوعر علوم حدیث میں بصیرت رکھنے والوں کے نزدیک یہ مضمون آنحضرتﷺ سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے، بلکہ صحیحین میں حضرت ابو سعید حدریؓ کی جو مفصل روایت ہے، اُس میں صراحت کے ساتھ یہ بھی مذکور ہے کہ جو گنہگار مسلمان دوزخ میں دالے جائیں گے، اُن کے حق میں نجات یافتہ مومنین اللہ تعالیٰ سے بڑے الحاح کے ساتھ عفو درگزر اور بخشش و کرم کی استدعا کریں گے۔ اور اللہ تعالیٰ اُن کی اس اتدعا و التجا کو قبول فرما کر اُنہی کو اجازت دیدیں گے، کہ جاؤ جس میں ایک دینار برابر بھی خیر تمہیں نظر آئے اس کو نکال لو، چنانچہ ایک بہت کثیر تعداد ایسے لوگوں کی بھی نکال لی جائے گی، پھر ان کو اجازت دی جائے گی کہ جاؤ ایسے لوگوں کو بھی نکال لو جن میں نصف دینار کے برابر خیر بھی تمہیں نظر آئے چنانچہ ایک بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی نکال لی جائے گی، پھر حکم ہو گا کہ جاؤ ایسے لوگوں کو بھی نکال لو جن کے اندر ذرہ برابر خیر بھی تمہیں نظر آئے، چنانچہ بہت بڑی تعداد اس درجے لوگوں کی بھی نکال لی جائے گی، اور اس کے بعد یہ سفارش کرنے والے خود عرض کریں گے: رَبَّنَا لَمْ نَذَرْ فِيْهَا خَيْرًا (خدا وند! اب دوزخ میں ہم نے کچھ بھی خیر رکھنے والا کوئی آدمی نہیں چھوڑا ہے)۔۔۔ اس کے بعد حق تعالیٰ کا ارشاد ہو گا:۔ "شَفَعَتِ الْمَلٰئِكَةُ وَشَفَعَ النَّبِيُّوْنَ وَلَمْ يَبْقَ اِلَّا اَرْحَمُ الرَّاحِمِيْنَ فَيَقْبِضُ قَبْضَةً فَيُخْرِجُ مِنْهَا قَوْمًا لَمْ يَعْمَلُوْا خَيْرًا قَطُّ" (فرشتوں کی بھی سفارش ہو چکی، اور نبیوں کی بھی سفارش ہو چکی، اور مومنین کی بھی سفارش ہو چکی اور ان کی سفارشیں بھی قبول کی جا چکیں، اور اب بس ارحم الراحمین ہی کی باری رہ گئی ہے، پھر اللہ تعالیٰ خود اپنی مغفرت و رحمت کے ہاتھ سے ایسے لوگوں کو بھی دوزخ سے نکالیں گے، جنہوں نے کبھی کوئی نیک عمل کیا ہی نہ ہو گا)۔ آگے حضرت ابو سعیدؓ کی اسی حدیث کے آخر میں ان لوگوں کے متعلق یہ بھی ہے کہ: هَؤُلَاءِ عُتَقَاءُ اللَّهِ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنَ النَّارِ بِغَيْرِ عَمَلٍ عَمِلُوهُ وَلَا خَيْرٍ قَدَّمُوهُ (یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے چھوڑے ہوئے ہوں گے اللہ اُن کو جنت میں داخل کرے گا بغیر عمل کے، جو انہوں نے کیا ہو، اور بغیر خیر کے جو انہوں نے پیش کیا ہو)۔ گویا یہ وہ لوگ ہوں گے جن کے پاس بہت ہی ضعیف اور نہایت ہی خفی ایمان کے سوا عملِ صالح اور خیر کا کوئی سرمایہ بالکل نہ ہو گا، مگر اللہ تعالیٰ بالآخر اُن کو بھی اپنے رحم و کرم سے دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کر دیں گے۔ اس مسئلہ میں اسلام کی ابتدائی صدیوں میں مرجیہ اور خوارج نے افراط اور تفریط کی راہ اختیار کی تھی، اور آج کل بھی بعض حلقوں کا رجحان افراط کی طرف اور بعض کا تفریط کی طرف ہو رہا ہے۔ اس لیے ہم نے حدیث کی نفسِ تشریح سے زیادہ چند سطریں لکھنی ضروری سمجھیں۔ وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ
Top