معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 17
أَنَّ عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا مِنَ الأَنْصَارِ: أَنَّهُ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَنْكَرْتُ بَصَرِي، وَأَنَا أُصَلِّي لِقَوْمِي، فَإِذَا كَانَتِ الأَمْطَارُ سَالَ الوَادِي الَّذِي بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ، لَمْ أَسْتَطِعْ أَنْ آتِيَ مَسْجِدَهُمْ فَأُصَلِّيَ لَهُمْ، فَوَدِدْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَّكَ تَأْتِي فَتُصَلِّي فِي بَيْتِي فَأَتَّخِذُهُ مُصَلًّى، فَقَالَ: «سَأَفْعَلُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ» قَالَ عِتْبَانُ: فَغَدَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ حِينَ ارْتَفَعَ النَّهَارُ، فَاسْتَأْذَنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَذِنْتُ لَهُ، فَلَمْ يَجْلِسْ حَتَّى دَخَلَ البَيْتَ، ثُمَّ قَالَ لِي: «أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ مِنْ بَيْتِكَ؟» فَأَشَرْتُ إِلَى نَاحِيَةٍ مِنَ البَيْتِ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَبَّرَ فَصَفَفْنَا، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ [ص:73] سَلَّمَ، وَحَبَسْنَاهُ عَلَى خَزِيرٍ صَنَعْنَاهُ، فَثَابَ فِي البَيْتِ رِجَالٌ مِنْ أَهْلِ الدَّارِ ذَوُو عَدَدٍ فَاجْتَمَعُوا، فَقَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ: أَيْنَ مَالِكُ بْنُ الدُّخْشُنِ؟ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: ذَلِكَ مُنَافِقٌ، لاَ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لاَ تَقُلْ، أَلاَ تَرَاهُ قَالَ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، يُرِيدُ بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ؟ " قَالَ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: قُلْنَا: فَإِنَّا نَرَى وَجْهَهُ وَنَصِيحَتَهُ إِلَى المُنَافِقِينَ، فَقَالَ: " فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَى النَّارِ مَنْ قَالَ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ (رواه البخارى و مسلم)
سچا ایمان و اسلام نجات کی ضمانت ہے
عتبان بن مالکؓ سے روایت ہے (اور وہ رسول اللہ ﷺ کے ان اصحابؓ میں سے ہیں، جو انصار میں سے غزوہ بدر میں شریک تھے) کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور عرض کیا، کہ: "میری نگاہ میں فرق آ گیا ہے (یعنی مجھے کم دکھائی دینے لگا ہے) اور میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں، سو جب بارشیں ہوتی ہیں اور میرے اور میری قوم والوں کے درمیان جو نالہ ہے، وہ بہنے لگتا ہے، تو میں ان کی مسجد تک جا کر نماز نہیں پڑھا سکتا اور یا رسول اللہ ﷺ! میری یہ خواہش ہے، کہ حضور میرے یہاں تشریف لائیں اور میرے گھر میں نماز پڑھیں، تا کہ میں اُسی جگہ کو اپنی مستقل نماز گاہ بنا لوں"۔ کہتے ہیں کہ حضور نے فرمایا: "ان شاء اللہ تعالیٰ میں ایسا کروں گا"۔ (عتبان کہتے ہیں) کہ صبح ہی کو جب کچھ دن چڑھا تھا رسول اللہ اور ابو بکرؓ میرے یہاں پہنچ گئے، اور رسول اللہ ﷺ نے اندر آنے کی اجازت چاہی، میں نے آپ کو اجازت دی، پس جب آپ گھر میں تشریف لائے، تو بیٹھے نہیں، اور مجھ سے فرمایا: "تم اپنے گھر میں سے کون سی جگہ پسند کرتے ہو، کہ میں وہاں نماز پڑھوں؟ " کہتے ہیں کہ میں نے گھر کی ایک جانب کی طرف اشارہ کر دیا، پس رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے، اور اللہ اکبر کہہ کر آپ نے نماز شروع کر دی، ہم بھی صف باندھ کے آپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے، پس آپ نے دو رکعتیں پڑھیں، اور سلام پھیر دیا، (عتبان کہتے ہیں) اور ہم نے آپ کو خزیرہ (۱) کھانے کے لئے روک لیا، جو آپ کے واسطے ہم نے تیار کیا تھا، اور (آپ کی اطلاع پا کے) محلہ والوں میں سے بھی چند آدمی آ کے جڑ گئے، پس انہی میں سے کسی کہنے والے نے کہا، کہ مالک بن دخیشن (یا ابنِ دخشن) کہاں ہے؟ انہی میں سے کسی نے جواب دیا، کہ "وہ تو منافق ہے، اللہ اور اس کے رسول سے اُسے محبت ہی نہیں ہے"۔ پس رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "یہ مت کہو! کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ وہ "لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ" کا قائل ہے، اور اس سے وہ اللہ کی رضا ہی چاہتا ہے"۔ اس کہنے والے شخص نے کہا، کہ "اللہ اور اس کے رسول ہی کو زیادہ علم ہے، ہم تو اُس کا رخ اور اُس کی خیر خواہی منافقوں کی طرف دیکھتے ہیں"۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "یقیناً اللہ عز وجل نے دوزخ کی آگ پر اُس شخص کو حرام کر دیا ہے، جس نے اخلاص کے ساتھ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ" کہا ہو، اور اُس کا ارادہ اس کلمہ سے اللہ تعالی کی رضا مندی حاصل کرنا ہی ہو "

تشریح
اس حدیث میں بھی "لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ " کہنے والے پر آتشِ دوزخ حرام ہونے کا مطلب وہی ہے، جو اسی مضمون کی سابقہ احادیث کی تشریح کے ضمن میں تفصیل سے لکھا جا چکا ہے۔ بلکہ اس حدیث کی صحیح مسلم کی روایت میں بجائے "لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ " کے "يشهد ان لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وانى رَسُولُ اللهِ " ہے اور مراد ان دونوں ہی عنوانوں سے دعوتِ اسلام کو قبول کرنا اور دین اسلام کو بحیثیت دین کے اختیار کر لینا ہے، دراصل جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے عہدِ نبوی میں اسلام قبول کرنے اور اسلام کو اختیار کرنے کی یہ عام تعبیر رتھی۔ یہاں ایک بات یہ بھی ملحوظ رکھنی چاہیے، کہ جن صحابی نے مالک بنِ دخشن کو منافق کہا تھا، اُن کی نظر میں بھی مالک بنِ دخشن میں نفاق یا فسق و فجور کی کوئی بات اس کے سوا نہ تھی، کہ اُن کے خیال میں مالک بنِ دخشن، منافقین سے تعلقات اور میل ملاقات رکھتے تھے۔ اس سے ایک طرف تو صحابہ کرامؓ کے ایمانی جذبے کا اندازہ ہوتا ہے، کہ وہ اتنہ سی بات سے بھی اس قدر ناراض ہوتے تھے، اور اس کو منافقت سمجھتے تھے۔ اور دوسری طرف آنحضرتﷺ کی تنبیہ سے سبق ملتا ہے کہ جن لوگوں میں اس طرح کی کچھ کمزوریاں ہوں، مگر اپنے ایمان اور توحید و رسالت کی شہادت میں وہ مخلص ہوں، تو ان کے بارے میں ایسی بدگمانیاں اور اتنی سخت باتیں کرنی جائز نہیں، بلکہ ایمان کا پہلو زیادہ قابلِ لحاظ اور واجب الاحترام ہے۔ یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ یہ مالک بن دخیشن بھی رسول اللہ ﷺ کے اُن صحابہ میں سے ہیں، جو عام غزوات میں حتی کہ بدر میں بھی شریک رہے ہیں، ممکن ہے کہ منافقین سے تعلقات رکھنے میں، حاطب بنِ ابھی بلتعہؓ کی طرح ان کی بھی کچھ مجبوریاں ہوں۔ واللہ اعلم۔
Top