معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 135
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ هَذِهِ الآيَةَ: {اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ} قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ أَنَّ قَطْرَةً مِنَ الزَّقُّومِ قُطِرَتْ فِي دَارِ الدُّنْيَا لأَفْسَدَتْ عَلَى أَهْلِ الدُّنْيَا مَعَايِشَهُمْ، فَكَيْفَ بِمَنْ يَكُونُ طَعَامَهُ؟. (رواه الترمذى)
دوزخ اور اس کا عذاب
عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: "اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ" (اللہ سے ڈرو، جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے، اور فیصلہ کر لو کہ ہرگز نہ مرو گے، مگر اس حال میں کہ تم مسلم (اللہ کے فرمانبردار بندے) ہو گے) (اور اللہ سے اس کے عذاب سے ڈرنے کے سلسلے میں) آپ نے بیان فرمایا کہ "زَّقُّوم" (جس کے متعلق قرآن مجید میں ہے کہ وہ جہنم میں پیدا ہونے والا ایک درخت ہے، اور وہ دوزخیوں کی خوراک بنے گا) اگر اس کا ایک قطرہ اس دنیا میں ٹپک جائے، تو زمین پر بسنے والوں کے سارے سامانِ زندگی کو خراب کر دے، پس کیا گزرے گی اس شخص پر جس کا کھانا وہی زقوم ہو گا (ترمذی)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ زقوم اس قدر گندی اور زہریلی چیز ہے، کہ اگر اس کا ایک قطرہ ہماری اس دنیا میں ٹپک جائے تو یہاں کی تمام چیزیں اس کی بدبو اور گندگی اور زہریلے پن سے متاثر ہو جائیں، اور ہمارے کھانے پینے کی ساری چیزیں خراب ہو جائیں، پس سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ زقوم جس کو کھانا پڑے گا اس پر کیا گزرے گی۔
Top