معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 12
عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: كُنْتُ رِدْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ إِلَّا مُؤْخِرَةُ الرَّحْلِ، فَقَالَ: «يَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ»، قُلْتُ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللهِ، وَسَعْدَيْكَ، ثُمَّ سَارَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: «يَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ» قُلْتُ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللهِ وَسَعْدَيْكَ، ثُمَّ سَارَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: «يَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ» قُلْتُ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللهِ وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: «هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ اللهِ عَلَى الْعِبَادِ؟» قَالَ: قُلْتُ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: «فَإِنَّ حَقُّ اللهِ عَلَى الْعِبَادِ أَنْ يَعْبُدُوهُ، وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا»، ثُمَّ سَارَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: «يَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ» قُلْتُ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللهِ، وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: «هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللهِ إِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ؟» قَالَ: قُلْتُ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: «أَنْ لَا يُعَذِّبَهُمْ» (رواه البخارى ومسلم واللفظ له)
سچا ایمان و اسلام نجات کی ضمانت ہے
حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے، کہ ایک دفعہ میں حضور ﷺ کے ساتھ ایک ہی سواری پر تھا اور میرے اور آپ ﷺ کے درمیان کجاوے کے پچھلے حصے کے سوا اور کوئی چیز حائل نہ تھی (یعنی میں حضور ﷺ کے پیچھے بالکل ملا ہوا بیٹھا تھا کہ چلتے ہی چلتے) آپ ﷺ نے مجھے پکارا، اور فرمایا: معاذ بن جبل!۔۔۔ میں نے عرض کیا: "لبیک یا رسول اللہ (ﷺ) وسعدیک" (یعنی میں حاضر ہوں، ارشاد فرمائیں)۔۔۔ پھر کچھ دیرچلنے کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: "معاذ بن جبل!" میں نے عرض کیا: "لبیک یا رسول اللہ (ﷺ) وسعدیک" پھر کچھ دیر چلنے کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: "معاذ بن جبل!" میں نے عرض کیا: "لبیک یا رسول اللہ (ﷺ) وسعدیک" (اس تیسری دفعہ میں) آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "تم جانتے ہو، کہ بندوں پر اللہ کا کیا حق ہے؟" میں نے عرض کیا: "اللہ و رسول ﷺ کو ہی زیادہ علم ہے" ارشاد فرمایا: "اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ اس کی عبادت و بندگی کریں، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں" پھر کچھ دیر چلنے کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: "معاذ بن جبل!" میں نے عرض کیا: "لبیک یا رسول اللہ (ﷺ) وسعدیک" آپ ﷺ نے فرمایا: "تم جانتے ہو کہ جب بندے اللہ کا یہ حق ادا کریں، تو پھر اللہ پر ان کا کیا حق ہے؟" میں نے عرض کیا: "اللہ و رسول ﷺ کو ہی زیادہ علم ہے" آپ ﷺ نے فرمایا: "یہ کہ انہیں عذاب میں نہ ڈالے"۔

تشریح
حضرت معاذؓ نے اصل حدیث بیان کرنے سے پہلے حضور ﷺ کے ساتھ ایک ہی سواری آپ کے پیچھے بالکل آپ سے مل کر بیٹھنے کو جس خاص انداز سے بیان کیا ہے، اس کی چند وجہیں ہو سکتی ہیں: ایک یہ کہ حضور ﷺ کی جو خاص شفقت اور عنایت حضرت معاذؓ پر تھی، اور بارگاہِ نبویﷺ میں جو خاص مقامِ قرب ان کو حاصل تھا، وہ سامعین کے پیشِ نظر رہے، تاکہ وہ یہ سمجھ سکیں کہ حضور ﷺ نے حضرت معاذؓ سے ایک ایسی بات کیوں فرمائی، جس کی عوام مسلمین میں اشاعت کے آپ روادار نہ تھے، جیسا کہ اگلی روایت میں تصریح ہے۔ دوسری بات اس کی توجیہ میں یہ بھی کہی جا سکتی ہے، کہ ممکن ہے حضرت معاذؓ کا مقصد اس تفصیل کے بیان کرنے سے اس حدیث کے بارے میں اپنا اتقان بھی ظاہر کرنا ہو، یعنی لوگوں پر یہ واضح کرنا ہو کہ مجھے یہ حدیث ایسی یاد ہے، کہ اُس وقت کی یہ جزئی باتیں بھی مجھے محفوظ ہیں۔ اور تیسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے، کہ جس طرح عشاق و محبین کی عادت ہوتی ہے کہ وہ محبت کی یادگار صحبتوں کو والہانہ انداز میں اور مزے لے لے کر تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں، اسی جذبے کے ما تحت حضرت معاذؓ نے حضور ﷺ کے ساتھ اہپنے سوار ہونے کی یہ تفصیل بیان کی ہو۔ ۲۔ حضور ﷺ نے تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد حضرت معاذؓ کو تین دفعہ مخاطب کیا، اور پھر جو کچھ آپ فرمانا چاہتے تھے اس کا ایک حصہ آپ نے تیسری دفعہ فرمایا، اور دوسرا جز کچھ دیر توقف کے بعد چوتھی دفعہ فرمایا۔۔۔ اس کی توجیہ میں شارحین نے لکھا ہے، کہ غالباً آنحضرتﷺ اس طرح حضرت معاذؓ کو پوری طرح اپنی طرف متوجہ فرمانا چاہتے تھے، تا کہ وہ ہمہ تن گوش ہو کر پوری رغبت و توجہ اور غور و تامل کے ساتھ آپ کا ارشاد سنیں۔۔۔ دوسری توجیہ یہ بھی کی گئی ہے کہ حضور ﷺ کو اس میں تردد اور توقف تھا، کہ حضرت معاذؓ سے بھی یہ بات بیان کر دی جائے یا نہ کی جائے، اس وجہ سے آپ نے ابتداء میں تو تین دفعہ توقف فرمایا، اور جب بیان فرما دینے ہی کے متعلق آپ کا شرح صدر ہو گیا تب آپ نے بیان فرمایا۔۔۔ لیکن راقم کے نزدیک ان دونوں توجیہوں میں تکلف ہے، اور زیادہ قرین قیاس یہ معلوم ہوتا ہے، کہ حضور ﷺ پر اس وقت کوئی خاص استغراقی حالت طاری تھی، آپ حضرت معاذؓ کو مخاطب کرتے تھے، اور کچھ فرمانے سے پہلے پھر اسی کیفیت میں استغراق ہو جاتا تھا، اس وجہ سے درمیان میں یہ وقفے ہوئے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ ۳۔ اصل حدیث کا حاصل صرف یہ ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا حق یہ ہے، کہ وہ اس کی عبادت اور بندگی کریں، اور کسی چیز کو اس کے ساتھ شرین نہ کریں، اور جب وہ اللہ کا یہ حق ادا کریں گے، تو االلہ تعالیٰ نے ان کا یہ حق اپنے پر مقرر کر لیا ہے کہ وہ ان کو عذاب میں نہ ڈالے گا۔ اس حدیث میں "اللہ کی عبادت کرنے اور شرک سے بچنے" سے مراد بھی درحقیقت دینِ توحید (یعنی اسلام) کو اختیار کرنا، اور اس پر چلنا ہے، اور چونکہ اس وقت اسلام و کفر کے درمیان سب سے بڑا اور واضح فرق و امتیاز توحید اور شرک ہی کا تھا، اس لئے اس حدیث میں (اور بعض، اور حدیثوں میں بھی) اسی عنوان کو اختیار کیا گیا ہے، نیز یہ بھی واقعہ ہے کہ اللہ کی عبادت و بندگی کرنا، اور شرک سے بچنا اسلام کی رُوح، اور اس کا مرکزی مسئلہ ہے، اس لئے بھی کبھی کبھی اسلام کے لیے یہ عنوان اختیار کر لیا جاتا ہے، اس بات کی تائید (کہ اس حدیث میں اللہ کی عبادت کرنے اور شرک سے بچنے سے مراد دین اسلام قبول کرنا ہے) اس سے بھی ہوتی ہے، کہ صحیحین (بخاری و مسلم) ہی میں حضرت معاذؓ کی اسی حدیث کی ایک روایت میں (جو اگلے ہی نمبر پر ذکر کی جارہی ہے) توحید و رسالت دونوں پر ایمان لانے اور دونوں کی شہادت ادا کرنے کا ذکر ہے، اور ایک روایت میں شہادت توحید و رسالت کے علاوہ نماز اور روزہ کا بھی ذکر ہے۔
Top