معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 126
عَنْ صُهَيْبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِذَا دَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ: يَقُولُ اللهُ تَعَالَى: أَتُرِيدُونَ شَيْئًا أَزِيدُكُمْ؟ فَيَقُولُونَ: أَلَمْ تُبَيِّضْ وُجُوهَنَا؟ أَلَمْ تُدْخِلْنَا الْجَنَّةَ، وَتُنَجِّنَا مِنَ النَّارِ؟ قَالَ: فَيَرْفَعُ الْحِجَابُ فَيَنْظُرُوْنَ اِلَى وَجْهِ اللهِ، فَمَا أُعْطُوا شَيْئًا أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنَ النَّظَرِ إِلَى رَبِّهِمْ ثُمَّ تَلَا "لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ ". (رواه مسلم)
جنت میں دیدارِ الہٰی
حضرت صہیبؓ رومی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا کہ: جب جنتی جنت میں پہنچ جائیں گے، تو اللہ تعالیٰ ان سے ارشاد فرمائیں گے، کیا تم چاہتے ہو میں تم کو ایک چیز مزید عطا کروں؟ (یعنی تم کو جو کچھ اب تک عطا ہوا، اس پر مزید اور اس سے سوا ایک خاص چیز اور عنایت کروں)۔ وہ بندے عرض کریں گے، آپ نے ہمارے چہرے روشن کئے (یعنی سرخروئی اور خوبروئی عطا فرمائی) اور دوزخ سے بچا کر جنت میں داخل کیا (اب اس کے آگے اور کیا چیز ہو سکتی ہے جس کی ہم خواہش کریں)۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ ان بندوں کے اس جواب کے بعد یکا یک حجاب اٹھ جائے گا (یعنی ان کا آنکھوں سے پردہ اٹھا دیا جائے گا) پس وہ روئے حق، اور جمالِ الہٰی کو بے پردہ دیکھیں گے، پس ان کا حال یہ ہو گا (اور وہ محسوس کریں گے) کہ جو کچھ اب تک انہیںملا تھا،اس سب سے زیادہ محبوب اور پیاری چیز ان کے لئے یہی دیدار کی نعمت ہے، یہ بیان فرما کے آپ نے قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی: "لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ" (جن لوگوں نے اس دنیا میں اچھی بندگی والی زندگی گزاری، ان کے لیے اچھی جگہ ہے (یعنی جنت وما فیہا) اور اس پر مزید ایک نعمت (یعنی دیدارِ حق)۔ (مسلم)

تشریح
حق تعالیٰ کا دیدار وہ سب سے بڑی نعمت ہے جس سے اہل جنت کو نوازا جائے گا، اور اللہ تعالیٰ نے جن کو عقلِ صحیح اور ذوق سلیم عطا کیا ہے، وہ اگر خعس اپنے سجداسن میں غور کریں، تو اس نعمت کی خواہش اور تمنا وہ ضرور اپنے میں پائیں گے، اور کیوں نہ ہو جو بندہ اپنے خالق اور رب کی بےشمار نعمتیں اس دنیا میں پا رہا ہے، اور پھر جنت میں پہنچ کر اس سے لاکھوں گنی نعمتیں پائے گا، لازماً اس کے دل میں یہ تمنا اور تڑپ پیدا ہو گی کہ کسی طرح میں اپنے اس محسن اور کریم رب کو دیکھ پاتا، جس نے مجھے وجود بخشا، اور جو اس طرح مجھ پر اپنی نعمتیں انڈیل رہا ہے۔ پس اگر اسے کبھی بھی یہ نظارہ نصیب نہ ہو، تو یقیناً اس کی لذت و مسرت اور اس کے عیش میں بڑی تشنگی رہے گی، اور اللہ تعالیٰ جس بندہ سے راضی ہو کر اس کو جنت میں پہنچائیں گے اس کو ہرگز اس سے تشنہ اور محروم نہیں رکھیں گے۔ اہلِ ایمانکے لیے قرآن مجید میں بھی اس نعمتِ عظمیٰ کی بشارت سنائی گئی ہے، اور رسول اللہ ﷺ نے بھی اپنے ارشادات میں صاف صاف اس کی خوش خبری دی ہے، اور تمام اہلِ ایمان نے بغیر کسی تردد کے اس پر یقین کیا ہے، لیکن بعض ایسے طبقے اور ایسے لوگ جو آخرت کی چیزوںکو بھی اس دنیا کے انداز سے سوچتے ہین، اوریہاں کے اپنے محدود علم و تجربے کو، علم و تجربے کاآخری اور انتہائی درجہ سمجھتے ہیں، انہیں اس مسئلہ میں شبہات پیش آتے ہیں، وہ سوچتے ہین کہ دیکھا تو اس چیز کو جا سکتا ہے جو جسم ہو اور اللہ تعالیٰ نہ جسم ہے، نہ اس کا کوئ رنگ ہے، اور نہ اس کے لیے آگے یا پیچھے کی کوئی جہت ہے، تو پھر اس کو دیکھا کیونکر جا سکتا ہے! حالانکہ یہ سراسر مغالطہ ہے، اگر اہلِ حق کا عقیدہ یہ ہوتا، کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار دنیا کی انہی آنکھوں سے ہو گا، جو صرف جسم کی، اور کسی رنگ دار چیز ہی کو دیکھ سکتی ہیں، اور جن کی بینائی صرف اس چیز کاادراک کر سکتی ہے، جو ان کی سیدھ میں یعنی سامنے ہو، تو بے شک ان منکرین کا یہ سوچنا کسی درجہ میں صحیح ہوتا، لیکن نہ قرآن و حدیث نے یہ بتلایا ہے، اور نہ اہلِ حق کا یہ عقیدہ ہے۔ اہلِ حق، اہل السنۃ والجماعۃ جو قرآن و حدیث کے اتباع میں اس کے قائل ہیں، کہ جنت میں حق تعالیٰ کا دیدار ان بندوں کو نصیب ہو گا جو اس نعمتِ عظمیٰ کے مستحق ہوں گے، وہ اس کے بھی قائل ہیں، کہ اللہ تعالیٰ جنتیوں کو بہت سی ایسی قوتیں عطا فرمائین گے، جو اس دنیا میں کسی کو عطا نہیں ہوئیں، اور انہی میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسی آنکھیں عطا ہوں گی، جن کی بینائی کی قوت اتنی محدود اور کمزور نہ ہو گی، جتنی کہ اس دنیا میں ہماری آنکھوں کی ہے، اور ان ہی آنکھوں سے اہلِ جنت کو اپنے اس رب قدوس کا دیدار نصیب ہو گا، جو نہ جسم ہے، نہ اس کا کوئی رنگ ہے اور نہ اس کے لیے کوئی جہت ہے، بلکہ وہ ان سب چیزوں سے وراء الوراء ہے، وہ نور ہے، سراسر نور ہے اور سارے انوار کا سرچشمہ ہے۔ اس توضیح کے بعد بھی رؤیت باری کے مسئلہ میں جن لوگوں کو عقلی استحالہ کا وسوسہ ہو، انہیں ذرا دیر کے لیے اس پر غور کرنا چاہیے کہ اپنی مخلوقات کو اللہ تعالیٰ بھی دیکھتا ہے، یا نہیں؟ اگر دیکھنا صرف ان ہی ذرائع سے، اور ان ہی شرائط کے ساتھ ہو سکتا ہے جن سے ہم دیکھتے ہیں، تو پھر تو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ بھی کسی کو نہ دیکھ سکتا ہو، کیوں کہ نہ اس کی آنکھ ہے، اور نہ کوئ مخلوق اس کی نسبت سے کسی جہت میں ہے۔ پس جو لوگ اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آنکھوں کے بغیر دیکھتا ہے، اور ہماری آنکھیں جن چیزوں کو کسی طرح، اور کسی حال نہیں دیکھ سکتیں، وہ ان کو بھی دیکھتا ہے اور بغیر مقابلہ اور جہت کے دیکھتا ہے، انہیں رؤیتِ باری کے مسئلہ میں بھی اس قسم کا کوئی وسوسہ نہ ہونا چاہئے، اور اللہ و رسول کی اطلاعات اور بشارات پر یقین کرتے ہوئے سمجھ لینا چاہئے کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ اپنی قدرت اور رحمت سے ایسی آنکھیں نصیب فرمائیں گے، جو حق تعالیٰ شانہ کے جمال کے نظارہ کی لذت بھی حاصل کر سکیں گی۔ قرآن پاک میں اہلِ ایمان کو بشارت سنائی گئی ہے، کہ "وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ" (مطلب یہ ہے کہ اہلِ جنت کے چہرے اس دن ترو تازہ ہوں گے، وہ خوش و خرم اور شاد ہوں گے اور اپنے رب کو دیکھتے ہوں گے)۔ اور اس کے بالمقابل دوسرے موقع پر مکذبین اور منکرین کے بارے میں فرمایا گیا ہے "إِنَّهُمْ عَنْ رَبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَمَحْجُوبُونَ" (یعنی یہ بدنصیب لوگ اس دن اپنے رب سے روک دئیے جائیں گے، اس کی زیارت اور اس کے دید سے محروم رکھے جائیں گے)۔ جنت میں حق تعالیٰ کی رؤیت سے متعلق رسول اللہ ﷺ سے جو احادیث مروی ہیں، وہ سب مل کر حد تواتر کو پہنچ جاتی ہیں، اور ایک مومن کے یقین کے لیے بالکل کافی ہیں، ذیل میں ان میں سے صرف چند حدیثیں درج کی جاتی ہیں: آنکھوں سے پردہ اٹھنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دفعۃً ان کی آنکھوں کو بینائی کی ایسی طاقت عطا فرما دے گا، کہ وہ روئے حق کا نظارہ کر سکیں گے۔ واللہ اعلم۔ رسول اللہ ﷺ نے آخر میں جو آیت تلاوت فرمائی، اس کے ذریعہ یہ بتلایا ہے کہ اس آیت میں "زِيَادَةٌ" سے مراد حق تعالیٰ کے دیدار کی نعمت ہے، جو جنت اور نعمائے جنت کے علاوہ اور ان سے سوا ہے۔
Top