معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 121
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ فِي الجَنَّةِ لَشَجَرَةً يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي ظِلِّهَا مِائَةَ سَنَةٍ، وَلَقَابُ قَوْسِ أَحَدِكُمْ فِي الجَنَّةِ ، خَيْرٌ مِمَّا طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ أَوْ تَغْرُبُ " (رواه البخارى ومسلم)
شفاعت
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جنت میں ایک ایسادرخت ہے کہ سوار اس کے سایے میں سو سال چلے اور پھر بھی اس کو پار نہ کر سکے، اور جنت میں تم میں سے کسی کی کمان کے بقدر جگہ بھی اس ساری کائنات سے بہتر ہے، جس پر آفتاب طلوع ہوتاہے، یا غروب ہوتا ہے۔ (بخاری و مسلم)

تشریح
حدیث کا مقصد دنیا اور اس کی راحتوں اور لذتوں کے مقابلے میں جنت اور اس کی نعمتوں کی بالاتری بیان فرما کے اس کا شوق دلوں میں پیدا کرنا ہے، اس سلسلہ میں پہلی بات یہ بیا ن فرمائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں اور راحت کے جو سامان اپنے بندوں کے لیے جنت میں پیدا کیے ہیں، ان میں سے ایک جنت کے وہ طویل و عریض سایہ دار درخت ہیں جن کا سایہ اتنے وسیع رقبہ پر پڑتا ہے، کہ سوار سو سال میں بھی اس کو طے نہیں کر سکتا، اور دوسری بات یہ فرمائی گئی ہے کہ جنت میں ایک کمان کی جگہ دنیا وما فیہا سے بہتر ہے، ابھی اوپر عرب کے اس دستور کا ذکر کیا جا چکا ہے کہ کوئی سوار جب کہیں اترنا چاہتا تھا کہ جب کوئی پیدل آدمی کسی جگہ منزل کرنا چاہتا تھا، تو وہ اپنی کمان وہاں ڈال دیتا تھا، اور اس طرح وہ جگہ اس کے لئے مخصوص ہو جاتی تھی، پس اس حدیث میں کمان کی جگہ سے مراد گویا ایک آدمی کی منزل ہے، اور مطلب یہ ہے کہ ایک پیادہ مسافر کمان ڈال کر جتنی جگہ کا مستحق ہو جاتا ہے، جنت کی اتنی مختصر سی جگہ بھی اس دنیا کی اس ساری کائنات سے زیادہ قیمتی اور بہتر ہے، جس پر آفتاب طلوع ہوتا ہے۔
Top