معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 118
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ اللَّهُ «أَعْدَدْتُ لِعِبَادِي الصَّالِحِينَ مَا لاَ عَيْنٌ رَأَتْ، وَلاَ أُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلاَ خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ، فَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ» (رواه البخارى ومسلم)
شفاعت
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ چیزیں تیار کی ہیں جن کو نہ کسی آنکھ نہ دیکھا ہے، نہ کسی کان نے سنا ہے، اور نہ کسی بشر کے دل میں کبھی ان کا خطرہ یا خیال ہی گذرا ہے، اور اگر تم چاہو تو پڑھو قرآن کی یہ آیت "فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ" (جس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی آدمی بھی ان نعمتوں کو نہیں جانتا جو ان بندوں کے لیے (جو راہ خدا میں اپنا محبوب مال خرچ کرنے والے ہیں، اور راتوں کو عبادتِ خداوندی میں مصروف رہنے والے ہیں) چھپا کے اور محفوظ کر کے رکھی گئی ہیں جن میں ان کی آنکھوں کے لیے ٹھنڈک کا سامان ہے۔ (بخاری و مسلم)

تشریح
یہ حدیثِ قدسی ہے، رسول اللہ ﷺ جب کوئی بات اس تصریح کے ساتھ فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے (اور وہ قرآن مجید کی آیت نہ ہو) تو ایسی حدیث کو "حدیث قدسی" کہتے ہیں، یہ حدیث شریف بھی اسی قسم کی ہے، اس میں اللہ کے بندوں کے لیے بشارت اور خوشی کا ایک عام اور ظاہر پہلو تو یہ ہے کہ دارِ آخرت میں ان کو ایسی اعلیٰ قسم کی نعمتیں ملیں گی جو دنیا میں کبھی کسی کو نصیب نہیں ہوئیں، بلکہ کسی آنکھ نے بھی ان کو نہیں دیکھا، اور نہ کسی کان نے ان کا حال سنا، اور نہ کبھی کسی انسان کے دل میں ان کا خیال ہی آیا، اور بشارت و مسرت کا دوسرا خاص پہلو، محبت و شفقتاور عنایت و کرم سے بھرے ہوئے رب کریم کے انالفاظ میں ہے کہ "" (میں نے اپنے بندوں کے لیے ایسی ایسی نعمتیں تیار کر کے رکھی ہوئی ہے، الخ) قربان ہوں بندے اپنے رب کریم کے اس کرم پر۔
Top