معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 109
عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ مَاجَ النَّاسُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، فَيَأْتُونَ آدَمَ فَيَقُولُونَ لَهُ: اشْفَعْ لِذُرِّيَّتِكَ، فَيَقُولُ: لَسْتُ لَهَا، وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِإِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَإِنَّهُ خَلِيلُ اللهِ، فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ فَيَقُولُ: لَسْتُ لَهَا وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِمُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَإِنَّهُ كَلِيمُ اللهِ، فَيُؤْتَى مُوسَى، فَيَقُولُ: لَسْتُ لَهَا، وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِعِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ ، فَإِنَّهُ رُوحُ اللهِ وَكَلِمَتُهُ، فَيُؤتَى عِيسَى، فَيَقُولُ: لَسْتُ لَهَا، وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأُوتَى، فَأَقُولُ: أَنَا لَهَا، فَأَنْطَلِقُ فَأَسْتَأْذِنُ عَلَى رَبِّي، فَيُؤْذَنُ لِي، فَأَقُومُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَأَحْمَدُهُ بِمَحَامِدَ لَا أَقْدِرُ عَلَيْهِ الْآنَ، يُلْهِمُنِيهِ اللهُ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيُقَالُ لِي: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَقُلْ: يُسْمَعْ لَكَ، وَسَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُولُ: رَبِّ، أُمَّتِي أُمَّتِي، فَيُقَالُ: انْطَلِقْ، فَمَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ بُرَّةٍ، أَوْ شَعِيرَةٍ مِنْ إِيمَانٍ، فَأَخْرِجْهُ مِنْهَا، فَأَنْطَلِقُ فَأَفْعَلُ، ثُمَّ أَرْجِعُ إِلَى رَبِّي فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيُقَالُ لِي: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَقُلْ يُسْمَعْ لَكَ، وَسَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُولُ: أُمَّتِي أُمَّتِي، فَيُقَالُ لِي: انْطَلِقْ فَمَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ فَأَخْرِجْهُ مِنْهَا، فَأَنْطَلِقُ فَأَفْعَلُ، ثُمَّ أَعُودُ إِلَى رَبِّي فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيُقَالُ لِي: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَقُلْ يُسْمَعْ لَكَ، وَسَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، أُمَّتِي أُمَّتِي، فَيُقَالُ لِي: انْطَلِقْ فَمَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ أَدْنَى أَدْنَى أَدْنَى مِنْ مِثْقَالِ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ فَأَخْرِجْهُ مِنَ النَّارِ فَأَنْطَلِقُ فَأَفْعَلُ "، هَذَا حَدِيثُ أَنَسٍ الَّذِي أَنْبَأَنَا بِهِ، فَخَرَجْنَا مِنْ عِنْدِهِ، فَلَمَّا كُنَّا بِظَهْرِ الْجَبَّانِ، قُلْنَا: لَوْ مِلْنَا إِلَى الْحَسَنِ فَسَلَّمْنَا عَلَيْهِ وَهُوَ مُسْتَخْفٍ فِي دَارِ أَبِي خَلِيفَةَ، قَالَ: فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ، فَسَلَّمْنَا عَلَيْهِ، فَقُلْنَا: يَا أَبَا سَعِيدٍ، جِئْنَا مِنْ عِنْدِ أَخِيكَ أَبِي حَمْزَةَ، فَلَمْ نَسْمَعْ مِثْلَ حَدِيثٍ حَدَّثَنَاهُ فِي الشَّفَاعَةِ، قَالَ: هِيَهِ، فَحَدَّثْنَاهُ الْحَدِيثَ، فَقَالَ: هِيَهِ قُلْنَا: مَا زَادَنَا، قَالَ: قَدْ حَدَّثَنَا بِهِ مُنْذُ عِشْرِينَ سَنَةً وَهُوَ يَوْمَئِذٍ جَمِيعٌ، وَلَقَدْ تَرَكَ شَيْئًا مَا أَدْرِي أَنَسِيَ الشَّيْخُ، أَوْ كَرِهَ أَنْ يُحَدِّثَكُمْ، فَتَتَّكِلُوا، قُلْنَا لَهُ: حَدِّثْنَا، فَضَحِكَ وَقَالَ: {خُلِقَ الْإِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ} ، مَا ذَكَرْتُ لَكُمْ هَذَا إِلَّا وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُحَدِّثَكُمُوهُ، " ثُمَّ أَرْجِعُ إِلَى رَبِّي فِي الرَّابِعَةِ، فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيُقَالُ لِي: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَقُلْ يُسْمَعْ لَكَ، وَسَلْ تُعْطَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، ائْذَنْ لِي فِيمَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، قَالَ: لَيْسَ ذَاكَ لَكَ - أَوْ قَالَ: لَيْسَ ذَاكَ إِلَيْكَ - وَلَكِنْ وَعِزَّتِي وَكِبْرِيَائِي وَعَظَمَتِي وَجِبْرِيَائِي، لَأُخْرِجَنَّ مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، " (رواه البخارى ومسلم)
شفاعت
انسؓ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا کہ: جب قیامت کا دن ہو گا (اور سب اولین و آخرین میدانِ حشر میں جمع ہوں گے) تو لوگوں میں سخت اضطراب اور اژدحام کی کیفیت ہو گی، پس وہ لوگ (یعنی اہلِ محشر کے کچھ نمائندے) آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے، کہ اپنے رب سے ہماری سفارش کر دیجئے (کہ ہمیں اس حالت سے چھٹکارا ملے) آدم علیہ السلام فرمائیں گے کہ میں اس کام کے لائق اور اس مرتبہ کا نہیں ہوں، لیکن تم کو چاہئے کہ ابراہیم کے پاس جاؤ وہ اللہ کے خلیل ہیں (شاید وہ تمہارے کام آ سکیں) پس وہ لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور ان کےسامنے شفاعت کا اپنا سوال رکھیں گے وہ بھی فرمائیں گے کہ میں اس کام کے لائق نہیں ہوں، لیکن تمہیں موسیٰ کے پاس جانا چاہیے وہ اللہ کے کلیم ہیں (جنہیں اللہ نے بلا واسطہ اپنی ہم کلامی کا شرف بخشا ہے) شاید وہ تمہارا کام کر سکیں، پس وہ لوگ موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے (اور اپنی وہی عرض ان کے سامنے رکھیں گے) وہ بھی یہی فرمائیں گے کہ میں اس کام کے لائق نہیں ہوں، لیکن تمہیں عیسیٰ کے پاس جانا چاہیے وہ کلمۃ اللہ ہیں (یعنی اللہ نے ان کو انسانی پیدائش کے عام مقررہ اسباب کے بغیر صرف اپنے حکم سے پیدا کیا ہے، اور ان کو غیر معمولی قسم کی روح اور روحانیت بخشی ہے) تم ان کی خدمت میں جاؤ شاید وہ تمہارے لئے حق تعالیٰ سے عرض کرنے کی جرأت کر سکیں، پس یہ لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے (اور ان سے شفاعت کی درخواست کریں گے) وہ بھی یہی فرمائیں گے کہ میں اس کام کا اور اس مرتبہ کا نہیں ہوں، تم کو (اللہ کے آخری نبی) محمدﷺ کی خدمت میں حاضر ہونا چاہیے (رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ) پھر وہ لوگ میرے پاس آئیں گے، (اور شفاعت کے لیے مجھ سے کہیں گے) پس میں کہوں گا، کہ میں اس کام کا ہوں (اور یہ میرا ہی کام ہے) پس میں اپنے رب کریم کی بارگاہِ خاص میں حاضری کی اجازت طلب کروں گا، مجھے اجازت دے دی جائے گی (میں وہاں حاضر ہو جاؤں گا) اور اللہ تعالیٰ اس وقت مجھے اپنی خاص تعریفیں اپنی حمد کے لیے الہام فرمائیں گے (جو اس وقت مجھے معلوم نہیں ہیں) تو اس وقت میں انہی الہامی محامد کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کروں گا، اور اس کے آگے سجدہ میں گر جاؤں گا (مسند احمد کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ےہ کہ آپ وہاں ایک ہفتہ تک سجدہ میں پڑے رہیں گے، اس کے بعد) اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو فرمایا جائے گا، کہ اے محمد! سر اُٹھاؤ، اورجو کہنا ہو کہو، تمہاری سنی جائے گی، اور جو مانگنا ہو مانگو تم کو دیا جائے گا، اور جو سفارش کرنا چاہو کرو، تمہاری مانی جائے گی، پس میں کہوں گا اے پروردگار! میری امت، میری امت! (یعنی میری امت پر آج رحم فرمایا جائے اور اس کو بخش دیا جائے) پس مجھ سے کہا جائے گا، جاؤ اور جس کے دل میں جَو کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو، اس کو نکال لو، پس میں جاؤں گا، اور ایسا کروں گا (یعنی جن کے دل میں جَو کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا، اس کو نکال لاؤں گا) اور پھر اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ کرم کی طرف لوٹوں گا اور پھر ان ہی الہامی محامد کے ذریعے اس کی حمد و ثنا کروں گا، اور اس کے آگے پھر سجدہ میں گر جاؤں گا۔ پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرمایا جائے گا، اسے محمد! سر اُٹھاؤ، اور جو کہنا ہو کہو تمہاری بات سنی جائے گی، اور جو مانگنا ہو مانگو تم کو دیا جائے گا، اور جو سفارش کرنا چاہو کرو، تمہاری شفاعت مانی جائے گی، پس میں عرض کروں گا اے پروردگار! میری امت، میری امت! تو مجھ سے فرمایا جائے گا، کہ جاؤ اور جن کے دل میں ایک ذرہ کے بقدر (یا فرمایا، کہ رائی کے دانہ کے بقدر) بھی ایمان ہو، ان کو بھی نکال لو، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں، کہ میں جاؤں گا اور ایسا کروں گا (یعنی جن کے دلوں میں ذرہ برابر، یا رائی کے دانہ کے برابر نورِ ایمان ہو گا، ان کو بھی نکال لاؤں گا) اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ کرم کی طرف پھر لوٹوں گا اور پھر ان ہی الہامی محامد کے ذریعہ اُس کی حمد و ثنا کروں گ، اور اس کے آگے پھر سجدہ میں گر جاؤں گا پس مجھ سے فرمایا جائے گا، اے محمد! اپنا سر اٹھاؤ، اور جو کہنا ہو کہو تمہاری سنی جائے گی، اور جو مانگنا چاہو مانگو، تم کو دیا جائے گا، اور جو سفارش کرنا چاہو کرو، تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی، پس میں عرض کروں گا میرے رب! میری امت، میری امت! پس مجھ سے فرمایا جائے گا، جاؤ اور جن کے دل میں رائی کے دانہ سے کم سے کمتر بھی ایمان ہو، ان کو بھی نکال لو، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ پس میں جاؤں گا اور ایسا کروں گا (یعنی جن کے دل میں رائی کے دانہ سے کم سے کمتر بھی ایمان کا نور ہو گا، ان کو بھی نکال لاؤں گا) اور اس کے بعد چوتھی دفعہ پھر اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ کرم کی طرف لوٹ آؤں گا، اور ان ہی الہامی محامد کے ذریعے اس کی حمد کروں گا پھر اس کے آگے سجدہ میں گر جاؤں گا، پس مجھ سے فرمایا جائے گا اے محمد! اپنا سر سجدہ سے اٹھاؤ، اور جو کہنا ہو کہا، تمہاری سنی جائے گی، اور جو مانگنا چاہو مانگو تم کو دیا جائے گا، اور جو سفارش کرنا چاہو کرو، تمہاری سفارش مانی جائے گی، پس میں عرض کروں گا کہ اے پروردگار! مجھے اجازت دیجئے کہ ان سب کے حق میں جنہوں نے لا الہ الا اللہ کہا ہو، اللہ تعالیٰ فرمائے گا، یہ کام تمہارا نہیں ہے، لیکن میری عزت و جلال اور میری عظمت و کبریائی کی قسم، میں خود دوزخ سے ان سب کو نکال لوں گا، جنہوں نے لا الہ الا اللہ کہا ہو۔ (بخاری و مسلم)

تشریح
شفاعت محشر میں پیش آنے والے جن واقعات کی اطلاع احادیث میں صراحت کے ساتھ دی گئی ہے اور جن پر ایک مومن کو یقین لانا ضروری ہے، ان میں سے ایک رسول اللہ ﷺ کی شفاعت بھی ہے، شفاعت کے متعلق حدیثیں اتنی کثرت سے وارد ہوئی ہیں کہ سب ملا کر تواتر کی حد کو پہنچ جاتی ہیں۔ پھر شفاعت کی ان حدیثوں کے مجموعہ سے سمجھ کر شارحین نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی شفاعت کئی قسم کی ہو گی، اور بار بار ہو گی، سب سے پہلے جب کہ سارے اہلِ محشر اللہ کے جلال سے سراسیمہ اور خوفزدہ ہوں گے اور کسی کو لب ہلانے کی جرأت نہیں ہو گی، اور آدمؑ سے لیکر عیسیٰؑ تک تمام اولولعزم پیغمبر بھی "نفسی نفسی" کے عالم میں ہوں گے اور کسی کے لیے شفاعت کی جرأت نہ کر سکیں گے، تو اس وقت عام اہلِ محشر کی درخواست پر، اور ان کی تکلیف سے متاثر ہو کر رسول اللہ نیاز مندی اور حسن ادب کے ساتھ (جو آپ کے شایان شان ہے) بارگاہِ رب العزت میں اہل محشر کے لیے سفارش کریں گے، کہ ان کو اس کی فکر اور بےچینی کی حالت سے نجات دی جائے، اور ان کا حساب کتاب اور فیصلہ فرما دیا جائے۔ بارگاہِ جلالت میں اس دن یہ سب سے پہلی شفاعت ہو گی، اور یہ شفاعت صرف آپ ہی فرمائیں گے۔ اس کے بعد ہی حساب اور فیصلہ کا کام شروع ہو جائے گا، یہ شفاعت جیسا کہ عرض کیا گیا عام اہلِ محشر کے لیے ہو گی، اس لیے اس کو "شفاعت عظمیٰ" بھی کہتے ہیں، اس کے بعد آپ اپنی امت کے مختلف درجہ کے ان گنہگاروں کے بارے میں جو اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے جہنم کے سزاوار ہوں گے، یا جو جہنم میں ڈالے جا چکے ہوں گے، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کریں گے کہ ان کو معاف کر دیا جائے، اور جہنم سے ان کو نکالنے کی اجازت دے دی جائے، آپ کی یہ شفاعت بھی قبول ہو گی، اور اس کی وجہ سے خطا کار امتیوں کی بہت بڑی تعداد جہنم سے نکالی جائے گی، اس کے علاوہ کچھ صالحین امت کے لیے آپ اس کی بھیشفاعت کریں گے کہ ان کے لیے بغیر حساب کے داخلہ جنت کا حکم دے دیا جائے۔ اسی طرح اپنے بہت سے امتیوں کے حق میں آپ ترقی درجات کی بھی اللہ تعالیٰ سے استدعا کریں گے، حدیثوں میں شفاعت کے ان تمام اقسام اور واقعات کی تفصیل وارد ہوئی ہے۔ پھر حدیثوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ شفاعت کا دروازہ کھل جانے کے بعد اور انبیاء علیہم السلام، ملائکہ عظام اور اللہ کے دوسرے صالح اور مقرب بندے بھی اپنے سے تعلق رکھنے والے اہلِ ایمان کے حق میں شفارشیں کریں گے، یہاں تک کہ کم عمر میں فوت ہونے والے اہلِ ایمان کے معصوم بچے بھی اپنے ماں باپ کے لئے سفارشیں کریں گے، اسی طرح بعض اعمال صالحہ بھی اپنے عاملوں کے لیے سفارش کریں گے۔ اور یہ سفارشیں بھی قبول فرمائی جائیں گی، اور بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہو گی جن کی نجات اور بخشش ان ہی سفارشوں ہی کے بہانہ ہو گی۔ مگر لحاظ رہے کہ یہ سب شفاعتیں اللہ کے اذن سے اور اس کی مرضی اور اجازت سے ہوں گی، ورنہ کسی نبی اور کسی فرشتہ کی بھی یہ مجال نہیں ہے کہ وہ اللہ کی مرضی کے بغیر کسی ایک آدمی کو بھی دوزخ سے نکال سکے۔ یا اس کا اذن اور ایما پائے بغیر کسی کے حق میں سفارش کے لیے زبان کھول سکے۔ قرآن پاک میں ہے: مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ، إِلَّا بِإِذْنِهِ کون ہے جو اس کی بارگاہ میں بغیر اس کی اجازت کے کسی کی سفارش کر سکے۔ دوسرے موقع پر فرمایا گیا: وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَى اور وہ نہیں سفارش کر سکیں گے مگر صرف اس کے لیے جس کے لیے اس کی رضا ہو۔ بلکہ علماء کرام نے جیسا کہ فرمایا ہے، شفاعت در اصل شفاعت کرنے والوں کی عظمت و مقبولیت کے اظہار کے لیے اور ان کے اکرام و اعزاز کے واسطے ہو گی، ورنہ حق تعالیٰ کے کاموں اور اس کے فیصلوں میں دخل دینے کی کسے مجال ہے۔ "يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ، وَيَحْكُمُ مَا يُرِيدُ"اس کی شان یہ ہے۔ اس تمہید کے بعد ذیل میں بابِ شفاعت کی حدیثیں پڑھیئے! اس حدیث میں چند باتیں تشریح طلب ہیں: ۱۔ حدیث میں جو کے برابر، رائی کے دانہ کے برابر، اور رائی کے دانہ سے کم سے کمتر، دل میں ایمان ہونے کا جو ذکر ہے، اس سے مراد نورِ ایمان اور ثمرات ایمان کے خاص خاص درجے ہیں۔ جن کا ادراک ہم کو تو نہیں ہوتا، لیکن حضور ﷺ کی بصیرت اس وقت اس کا ادراک کر لے گی، اور آپ ان درجوں والوں کو اللہ کے حکم سے نکال لائیں گے۔ ۲۔ حدیث کے آخری حصے میں مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی امت کے لیے تین دفعہ شفاعت فرمانے کے بعد چوتھی دفعہ حق تعالیٰ سے درخواست کریں گے کہ مجھے ان لوگوں کے بارے میں اجازت دی جائے جنہوں نے لا الہ الا اللہ کہا ہو، اس کا مطلب بظاہر یہ ہے جن لوگوں نے آپ کی دعوتِ توحید کو تو قبول کر لیا، اور ایمان لے آئے، لیکن دوزخ سے نجات پانے اور جنت میں جانے کے لیے جو اور اعمال کرنا چاہئے تھے، وہ انہوں نے بالکل نہیں کئے، تو مطلب یہ ہواکہ رسول اللہ ﷺ آخر میں ایسے لوگوں کو بھی دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کرنے کی اجازت چاہیں گے جن کے پاس کسی درجہ کا مجرد ایمان اور توحید اعتقاد تو ہو گا لیکن عمل خیر سے وہ بالکل خالی ہوں گے (بخاری و مسلم ہی کی ابو سعید خدریؓ کی حدیث میں غالباً اسی گروہ کے حق میں "لَمْ يَعْمَلُوْا خَيْرًا قَطُّ" کے الفاظ آئے ہیں، جن کا مطلب یہی ہے کہ انہوں نے کبھی کوئی نیک عمل نہیں کیا ہو گا) اللہ تعالیٰ فرمائیں گے "لَيْسَ ذَالِكَ لَكَ" یعنی ان مسکینوں کو جہنم سے نکالنے کا کام میں نے آپ کے لیے نہیں رکھا، یا مطلب یہ ہے کہ آپ کے لیے یہ سزا وار اور مناسب نہیں ہے، بلکہ یہ کام میری عزت و جلال اور میری عظمت و کبریائی اور شان "فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْدُ" کے لیے ہی سزاوار ہے، اس لیے اس کو میں خود ہی کروں گا۔ اس عاجز کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے ایمان لا کر احکام کی تعمیل بالکل نہیں کی، ایسوں کو دوزخ سے نکالنا پیغمبر کے لئے مناسب نہیں ہے، اس درجہ کا عفو و درگزر اللہ ہی کے لئے سزاوار ہے۔ واللہ اعلم۔ ۴۔ معلوم ہوتا ہے اس روایت میں آدمؑ کے بعد اور ابراہیمؑ سے پہلے اہلِ محشر کے نوح علیہ السلام کی خدمت میں بھی حاضر ہونے کا ذکر ہے جو اس میں نہیں ہے۔ نیز اس میں صرف اپنی امت کے حق میں رسول اللہ ﷺ کی شفاعت کا ذکر ہے، حالانکہ قرین قیاس یہ ہے کہ پہلے آپ عام اہلِ محشر کے لیے حساب اور فیصلہ کی شفاعت فرمائیں گے جس کو "شفاعتِ کبریٰ" کہتے ہیں، پھر جب حساب کے نتیجہ میں بہت سے آپ کے امتی اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے دوزخ کی طرف بھیج دئیے جائیں گے، تو آپ ان کو دوزخ سے نکالنے اور جنت میں داخل کرانے کے لئے شفاعت فرمائیں گے۔ واللہ اعلم۔ ۴۔ اہلِ محشر کے جو نمائندے کسی شفیع کی تلاش میں نکلیں گے، اس وقت اللہ تعالیٰ ان کے دل میں یہی ڈالے گا، کہ وہ پہلے آدم علیہ السلام کی خدمت میں اور پھر ان کی رہنمائی اور مشورہ سے نوح علیہ السلام کی خدمت میںإ اور پھر اسی طرح ابراہیم اور موسیٰ و عیسیٰ (علیہم السلام) کی خدمت میں حاضر ہوں یہ سب منجانب اللہ اس دن اس لئے ہو گا کہ عملی طور پر سب کو معلوم ہو جائے کہ اس شفاعت کا منصب اور "مقام محمود" اس کے آخری نبی کے لیے مخصوص ہے۔ بہر حال اس دن یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ ﷺ کی عظمت اور رفعتِ مقام کے برسرِ محشر اظہار کے لئے ہو گا۔
Top