معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 105
عَنْ ثَوْبَانَ عَنِ النَّبِىِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : «حَوْضِي مِنْ عَدَنَ إِلَى عَمَّانَ الْبَلْقَاءِ، مَاؤُهُ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ، وَأَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ، وَأَكْوَابُهُ عَدَدُ نُجُومِ السَّمَاءِ مَنْ شَرِبَ مِنْهُ شَرْبَةً لَمْ يَظْمَأْ بَعْدَهَا أَبَدًا. أَوَّلُ النَّاسِ وُرُودًا فُقَرَاءُ الْمُهَاجِرِينَ الشُّعْثُ رُءُوسًا الدُّنْسُ ثِيَابًا الَّذِينَ لَا يَنْكِحُونَ الْمُتَنَعِّمَاتِ، وَلَا تُفْتَحُ لَهُمْ السُّدَدِ»(رواه احمد والترمذى وابن ماجه)
حوض وکثر ، صراط اور میزان
ثوبان سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ میرے حوض کی مسافت (اتنی ہے جتنی کہ) عَدَن سے عمانِ بلقاء تک، اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اورشہد سے زیادہ شیریں ہے، اور اس کے گلاس گنتی میں آسمان کے ستاروں کی طرح (بےشمار) ہیں (اس کے پانی کی یہ صفت ہے کہ) جو اس میں سے ایک دفعہ پی لے گا، اسے اس کے بعد کبھی پیاس کی تکلیف نہیں ہو گی، اس حوض پر سب لوگوں سے پہلے میرے پاس پہنچنے والے فقراء مہاجرین ہوں گے، پریشان و پراگندہ سروں والے، میلے کچیلے کپڑوں والے، جن کا نکاح خوش حال و خوش عیش عورتوں سے نہیں ہو سکتا، اور جن کے لیے دورازے نہیں کھولے جاتے (یعنی جن کو خوس آمدید نہیں کہا جاتا)۔ (احمد، ترمذی، ابن ماجہ)

تشریح
عَدَن مشہور مقام ہے، اور عمان بھی شام کے علاقہ کا مشہور شہر ہے، بلقاء عمان کے قریب ایک بستی تھی، بطور امتیاز اور نشانی کے اس حدیث میں "عمان بلقاء" کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، اور مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں عدن اور بلقاء کے قریب والے عمان کے درمیان جتنا فاصلہ ہے، آخرت میں حوض کوثر کی مسافت اتنی ہو گی، اور واضح رہے کہ یہ بھی کوئی ناپی ہوئی مسافت نہیں ہے، کہ ٹھیک اتنے ہی میل اور اتنے ہی فرلانگ اور اتنے ہی فٹ ہوں۔ بلکہ حوض کی وسعت کو سمجھانے کے لیے عرف کے مطابق یہ ایک تقریبی بات کہی گئی ہے، اور مطلب یہ ہے کہ حوض کی مسافت سینکڑوں میل کی ہو گی۔ آخر میں فرمایا گیا کہ سب سے پہلے حوض پر پہنچنے والے اور اس سے سیراب ہونے والے وہ غریب مہاجرین ہوں گے جو اپنے فقر و تنگدستی اور دنیا کی بے رغبتی کی وجہ سے اس حال میں رہتے ہیں کہ، ان کے سروں کے بال بنے سنورے نہیں رہتے، بلکہ بکھرے ہوئے اور الجھے ہوئے رہتے ہیں اور کپڑے بھی ان کے اچھے اجلے نہیں رہتے، بلکہ میلے کچیلے رہتے ہیں، جو اگر نکاح کرنا چاہیں تو ان کی اس حالت کی وجہ سے خوش عیش اور خوش حال گھرانوں کی بیٹیاں ان کے نکاحوں میں نہ دی جائیں، اور وہ کسی کے گھر پر جائیں، تو ان کے میلے کچیلے کپڑے، اور ان کی شکل و صورت کی وجہ سے کوئی ان کے لیے اپنا دروازہ نہ کھولے، اور ان کی خوش آمدید نہ کہے۔ معلوم ہوا کہ اللہ کے جن بندوں کا حال یہ ہو، کہ دنیا کی بےرغبتی اور دین میں انہماک اور فکر آخرت کے غلبہ کی وجہ سے اس دنیا میں وہ غریب و تنگدست ہو کر رہیں، نہ اپنی صورتوں کے بناؤ سنگار کی فکر رکھیں، نہ لباس پوشاک کی، وہ اپنی غربت اور دینوی عیش کی اس قربانی کی وجہ سے آخرت کے انعامات میں مقدم اور فائق رہیں گے، ہمارے اس زمانہ کے جو حضرات اس طرزِ عمل کو کسی غلط فہمی کی وجہ سے ’تقثف‘ اور رہبانیت پسندی اور دین کے غلط تصور کا نتیجہ سمجھتے ہیں، چاہیے کہ وہ اس قوم کی حدیثوں پر غور کریں۔ ہر زمانہ کے کچھ امراض ہوتے ہٰن جس طرح پہلے کسی زمانہ میں واقعی رہبانیت اور ترک دنیا کی غلط اور غیر اسلامی صورتوں کو اسلام کا پسندیدہ زُہد بعض حلقوں میں سمجھا اور سمجھایا جاتا تھا، اسی طرح ہمارے اس زمانے میں (شاید اس کے ردِ عمل میں) بعض حلقوں کا مستقل رجحان یہ ہے کہ اسلام کو اور اس کی تعلیمات کو اس دور کے مادہ پرستانہ اور نفس پرستانہ تقاضوں سے زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ کیا جائے۔ وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ
Top