سنن ابنِ ماجہ - نماز کا بیان - حدیث نمبر 678
حدیث نمبر: 678
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ إِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ فَأَبْرِدُوا بِالظُّهْرِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ شِدَّةَ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ.
سخت گرمی میں ظہر کی نماز کو ٹھنڈا کرنا ( یعنی ٹھنڈے وقت میں ادا کرنا)۔
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب گرمی سخت ہوجائے تو ظہر کو ٹھنڈا کرلیا کرو، اس لیے کہ گرمی کی شدت جہنم کی لپٹ سے ہے ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساجد ٣٢ (٦١٥)، سنن ابی داود/الصلاة ٤ (٤٠٢)، سنن الترمذی/الصلاة ٥ (١٥٧)، سنن النسائی/المواقیت ٥ (٥٠١)، (تحفة الأشراف: ١٣٢٢٦) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: جہنم جاڑے کے دنوں میں اندر کی طرف سانس لیتی ہے اور گرمی کے دنوں میں سانس کو باہر نکالتی ہے جیسے دوسری حدیث میں وارد ہے، بعض لوگوں نے یہ سمجھا ہے کہ گرمی کا تعلق سورج نکلنے سے ہے لیکن یہ علت صحیح نہیں ہے، کیونکہ اونچے مقام پر گرمی نہیں ہوتی جب کہ سورج اس سے قریب ہوتا ہے، اور اصل وجہ گرمی اور جاڑے کی یہ ہے کہ زمین گرم ہو کر اپنی سانس یعنی بخارات باہر نکالتی ہے، اس سے گرمی معلوم ہوتی ہے اور کوئی مانع اس سے نہیں ہے کہ جہنم کا ایک ٹکڑا زمین کے اندر ہو، اور جیالوجی (علم الارض) سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین کے اندر ہزار فٹ پر ایسی حرارت ہے کہ اگر وہاں حیوان پہنچیں تو فوراً مرجائیں، اور اس سے بھی زیادہ نیچے ایسی گرمی ہے کہ لوہا، تانبہ اور شیشہ پگھلا ہوا رہتا ہے، اللہ تعالیٰ ہم کو جہنم سے بچائے، آمین، نیز جمہور نے اسے حقیقت پر محمول کیا ہے، اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ یہ بطور تشبیہ و تقریب کہا گیا ہے یعنی یہ گویا جہنم کی آگ کی طرح ہے، اس لئے اس کی ضرر رسانیوں سے بچو، اور احتیاط کرو، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی اکرم مغرب جلدی پڑھتے تھے، بعض روایتوں میں شفق ڈوبنے تک مغرب کو مؤخر کرنے کا جو ذکر ملتا ہے وہ بیان جواز کے لئے ہے۔
It was narrated from Abu Hurairah (RA) that the Messenger of Allah ﷺ said: “When it is very hot, then wait for it to cool down before you pray, for intense heat is from the flaring up of the HellFire.” (Sahih)
Top