سنن ابنِ ماجہ - سنت کی پیروی کا بیان - حدیث نمبر 124
حدیث نمبر: 124
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏ وَهَدِيَّةُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَتْ عَائِشَةُ:‏‏‏‏ يَا عُرْوَةُ كَانَ أَبَوَاكَ مِنْ الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ سورة آل عمران آية 172:‏‏‏‏ أَبُو بَكْرٍ وَالزُّبَيْرُ .
حضرت زبیر ؓ کی فضیلت۔
عروہ کہتے ہیں کہ مجھ سے ام المؤمنین عائشہ ؓ نے کہا: عروہ! تمہارے نانا (ابوبکر) اور والد (زبیر) ان لوگوں میں سے ہیں جن کے بارے میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: الذين استجابوا لله والرسول من بعد ما أصابهم القرح جن لوگوں نے زخمی ہونے کے باوجود اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہا (سورة آل عمران: 172) ، یعنی ابوبکر اور زبیر بن عوام ؓ۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ١٦٩٣٩)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/المغازي ١٦ (٤٠٧٧)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٦ (٢٤١٨)، مسند احمد (١/١٦٤، ١٦٦) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: پوری آیت یوں ہے: الذين استجابوا لله والرسول من بعد مآ أصابهم القرح للذين أحسنوا منهم واتقوا أجر عظيم یعنی: جن لوگوں نے زخمی ہونے کے بعد اللہ اور رسول کا کہنا مانا، جو لوگ ان میں نیک و صالح اور پرہیز گار ہوئے ان کو بڑا ثواب ہے (سورة آل عمران: 172)۔ اس آیت کا شان نزول امام بغوی نے یوں ذکر کیا ہے کہ جب ابو سفیان اور کفار مکہ جنگ احد سے واپس لوٹے، اور مقام روحا میں پہنچے تو اپنے لوٹنے پر نادم و شرمندہ ہوئے اور ملامت کی، اور کہنے لگے کہ ہم نے محمد کو نہ قتل کیا، نہ ان کی عورتوں کو قید کیا، پھر ان لوگوں نے یہ طے کیا کہ دوبارہ واپس چل کر مسلمانوں کا کام تمام کردیا جائے، جب یہ خبر نبی اکرم کو پہنچی تو آپ نے اپنی طاقت کے اظہار کے لئے صحابہ کرام کی ایک جماعت اکٹھا کی، اور ابوسفیان اور کفار مکہ کے تعاقب میں روانہ ہونا چاہا، اور اعلان کردیا کہ ہمارے ساتھ غزوہ احد کے شرکاء کے علاوہ اور کوئی نہ نکلے، جابر بن عبداللہ ؓ نے اجازت طلب کی تو آپ نے ان کو ساتھ چلنے کی اجازت دے دی، نبی کریم ﷺ، ابوبکر، عثمان، علی، طلحہ، زبیر، سعد، سعید، عبدالرحمن بن عوف، عبداللہ بن مسعود، حذیفہ بن الیمان، اور ابوعبیدہ بن جراح وغیرہم کی معیت میں ستر آدمیوں کو لے کر روانہ ہوئے، اور حمراء الأسد (مدینہ سے بارہ میل ( ١٩ کلومیٹر) کے فاصلے پر ایک مقام) پر پہنچے، اس کے بعد بغوی (رح) نے یہی روایت ام المؤمنین عائشہ ؓ سے نقل کی ہے، غرض وہاں معبد خزاعی نامی ایک آدمی تھا جو نبی کریم سے محبت رکھتا تھا، اور وہاں کے بعض لوگ ایمان لا چکے تھے تو معبد نے نبی کریم سے عرض کیا کہ ہم کو آپ کے اصحاب کے زخمی ہونے کا بہت رنج ہوا، غرض وہ وہاں سے ابوسفیان کے پاس آیا، اور ان کو صحابہ کرام ؓ کی شجاعت کی خبر دی، ابوسفیان اور ان کے ساتھی اس خبر کو سن کر ٹھنڈے ہوگئے، اور مکہ واپس لوٹ گئے، غرض اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کی فضیلت میں یہ آیت نازل فرمائی۔
It was narrated from Hishám bin ‘Urwah that his father said: “ Aisha (RA) said to me: ‘O ‘Urwah, your two fathers were of those who answered (the Call of Allah and the Messenger (Muhammad) after being wounded, (they were) Abu Bakr (RA) and Zubair” (Sahih)
Top