سنن ابنِ ماجہ - زکوۃ کا بیان - حدیث نمبر 1811
حدیث نمبر: 1811
حَدَّثَنَا أَبُو بَدْرٍ عَبَّادُ بْنُ الْوَلِيدِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو عَتَّابٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَطَاءٍ مَوْلَى عِمْرَانَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي أَبِي، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عِمْرَانَ بْنَ الْحُصَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏اسْتُعْمِلَ عَلَى الصَّدَقَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا رَجَعَ، ‏‏‏‏‏‏قِيلَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَيْنَ الْمَالُ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَلِلْمَالِ أَرْسَلْتَنِي، ‏‏‏‏‏‏أَخَذْنَاهُ مِنْ حَيْثُ كُنَّا نَأْخُذُهُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَوَضَعْنَاهُ حَيْثُ كُنَّا نَضَعُهُ.
زکوة وصول کرنے والوں کے احکا م
عمران ؓ کے غلام عطا بیان کرتے ہیں کہ عمران بن حصین ؓ زکاۃ پہ عامل بنائے گئے، جب لوٹ کر آئے تو ان سے پوچھا گیا: مال کہاں ہے؟ انہوں نے کہا: آپ نے مجھے مال لانے کے لیے بھیجا تھا؟ ہم نے زکاۃ ان لوگوں سے لی جن سے رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں لیا کرتے تھے، اور پھر اس کو ان مقامات میں خرچ ڈالا جہاں ہم خرچ کیا کرتے تھے ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الزکاة ٢٢ (١٦٢٥)، (تحفة الأشراف: ١٠٨٣٤) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ زکاۃ وصول کر کے آپ کے پاس لانا ضروری نہ تھا، بلکہ زکاۃ جن لوگوں سے لی جائے انہی کے فقراء و مساکین میں بانٹ دینا بہتر ہے، البتہ اگر دوسرے لوگ ان سے زیادہ ضرورت مند اور محتاج ہوں تو ان کو دینا چاہیے، پس میں نے سنت کے موافق جن لوگوں سے زکاۃ لینی چاہی تھی، ان سے لی اور وہیں فقیروں اور محتاجوں کو بانٹ دی، آپ کے پاس کیا لاتا؟ کیا آپ نے مجھ کو مال کے یہاں اپنے پاس لانے پر مقرر کیا تھا؟۔
Ibrahim bin Ata, the freed slave of Imran bin Husain, said: "My father told me that Imran bin Husain was appointed to collect the Sadaqah. When he came back, it was said to him: Where is the wealth? He said: Was it for wealth that you sent me? We took it from where we used to take it at the time of the Messenger of Allah ﷺ , and we distributed it where we used to distribute it. "(Hasan)
Top