معارف الحدیث - - حدیث نمبر 2625
حدیث نمبر: 2625
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْدِ بْنِ ضُمَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي أَبِي وَعَمِّي وَكَانَا شَهِدَا حُنَيْنًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ ثُمَّ جَلَسَ تَحْتَ شَجَرَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ إِلَيْهِ الْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ وَهُوَ سَيِّدُ خِنْدِفٍ يَرُدُّ عَنْ دَمِ مُحَلِّمِ بْنِ جَثَّامَةَ وَقَامَ عُيَيْنَةُ بْنُ حِصْنٍ يَطْلُبُ بِدَمِ عَامِرِ بْنِ الْأَضْبَطِ وَكَانَ أَشْجَعِيًّا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ تَقْبَلُونَ الدِّيَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَبَوْا، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي لَيْثٍ يُقَالُ لَهُ:‏‏‏‏ مُكَيْتِلٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهِ مَا شَبَّهْتُ هَذَا الْقَتِيلَ فِي غُرَّةِ الْإِسْلَامِ إِلَّا كَغَنَمٍ وَرَدَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَرُمِيَتْ أَوَّلُهَا فَنَفَرَ آخِرُهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَكُمْ خَمْسُونَ فِي سَفَرِنَا، ‏‏‏‏‏‏وَخَمْسُونَ إِذَا رَجَعْنَافَقَبِلُوا الدِّيَةَ.
کسی نے عمدا قتل کیا پھر مقتول کے ورثہ دیت پر راضی ہوگئے۔
زید بن ضمیرہ کہتے ہیں کہ میرے والد اور چچا دونوں جنگ حنین میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے، ان دونوں کا بیان ہے کہ آپ ﷺ نے ظہر پڑھی پھر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے، تو قبیلہ خندف کے سردار اقرع بن حابس ؓ آپ ﷺ کے پاس گئے، وہ محکلم بن جثامہ سے قصاص لینے کو روک رہے تھے، عیینہ بن حصن ؓ اٹھے، وہ عامر بن اضبط اشجعی کے قصاص کا مطالبہ کر رہے تھے ١ ؎، بالآخر رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: کیا تم دیت (خون بہا) قبول کرتے ہو ؟ انہوں نے انکار کیا، پھر بنی لیث کا مکیتل نامی شخص کھڑا ہوا، اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! قسم اللہ کی! اسلام کے شروع زمانے میں یہ قتل میں ان بکریوں کے مشابہ سمجھتا تھا جو پانی پینے آتی ہیں، پھر جب آگے والی بکریوں کو تیر مارا جاتا ہے تو پیچھے والی اپنے آپ بھاگ جاتی ہیں، ٢ ؎ آپ ﷺ نے فرمایا: تم پچاس اونٹ (دیت کے) ابھی لے لو، اور بقیہ پچاس مدینہ لوٹنے پر لے لینا، لہٰذا انہوں نے دیت قبول کرلی ۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الدیات ٣ (٤٥٠٣)، (تحفة الأشراف: ٣٨٢٤)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٥/١١٢، ٦/١٠) (ضعیف) (سند میں زید بن ضمیرہ مقبول ہیں، لیکن متابعت نہ ہونے سے سند ضعیف ہے )
وضاحت: ١ ؎: محلم بن جثامہ نے قبیلہ اشجع کے عامر بن اضبط کو مار ڈالا تھا، تو اقرع ؓ کہتے تھے کہ محلم سے قصاص نہ لیا جائے اور عیینہ ؓ قصاص پر زور دیتے تھے۔ ٢ ؎: اس تشبیہ کا مقصد یہ ہے کہ اگر (بشرط صحت حدیث) آپ اس مقدمہ کا بندوبست نہ کرتے تو اس سے بہت بڑا دوسرا فساد اٹھ کھڑا ہوتا، مسلمان آپس میں لڑنے لگتے تو اس کا بندوبست ایسا ہوا جیسے بکریوں کا گلہ پانی پینے کو چلا لیکن آگے کی بکریوں کو مار کر وہاں سے ہٹا دیا گیا تو پیچھے کی بھی بکریاں بھاگ گئیں، اگر نہ مارتا تو پھر سب چلی آتیں، اسی طرح اگر آپ اس مقدمہ کا بندوبست نہ کرتے تو دوسرے لوگ بھی اس میں شریک ہوجاتے اور فساد عظیم ہوتا۔
Top