سنن ابنِ ماجہ - تجارت ومعاملات کا بیان - حدیث نمبر 2157
حدیث نمبر: 2157
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏ وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُغِيرَةُ بْنُ زِيَادٍ الْمَوْصِلِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ ثَعْلَبَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ عَلَّمْتُ نَاسًا مِنْ أَهْلِ الصُّفَّةِ الْقُرْآنَ وَالْكِتَابَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَهْدَى إِلَيَّ رَجُلٌ مِنْهُمْ قَوْسًا، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ لَيْسَتْ بِمَالٍ وَأَرْمِي عَنْهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهَا؟، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنْ سَرَّكَ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ تُطَوَّقَ بِهَا طَوْقًا مِنْ نَارٍ فَاقْبَلْهَا.
قرآن سکھانے پر اجرت لینا۔
عبادہ بن صامت ؓ کہتے ہیں کہ میں نے اہل صفہ میں سے کئی لوگوں کو قرآن پڑھنا اور لکھنا سکھایا، تو ان میں سے ایک شخص نے مجھے ایک کمان ہدیے میں دی، میں نے اپنے جی میں کہا: یہ تو مال نہیں ہے، یہ اللہ کے راستے میں تیر اندازی کے لیے میرے کام آئے گا، پھر میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تم کو یہ اچھا لگے کہ اس کمان کے بدلے تم کو آگ کا ایک طوق پہنایا جائے تو اس کو قبول کرلو ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/البیوع ٣٧ (٣٤١٦)، (تحفة الأشراف: ٥٠٦٨)، وقدأخرجہ: مسند احمد (٥/٣١٥) (صحیح) (سند میں اسود بن ثعلبہ مجہول راوی ہیں، لیکن دوسرے طریق سے یہ صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: ٢٥٦ )
وضاحت: ١ ؎: اہل صفہ وہ صحابہ جو مسجد نبوی کے سائبان میں رہا کرتے تھے۔ اس حدیث سے حنفیہ نے استدلال کرتے ہوئے تعلیم قرآن پر اجرت لینے کو ناجائز کہا ہے، تلاوت پر اجرت لینا جائز ہے، تلاوت پر اجرت لینے کا جواز ابوسعید خدری ؓ کی حدیث سے نکلتا ہے (جو اوپر گزری، ملاحظہ ہو حدیث ٢١٥٦ )، اور صحیح بخاری میں ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ لوگوں نے ابوسعید سے کہا: آپ نے اللہ کی کتاب پر اجرت لی، اس پر انہوں نے فرمایا کہ سب سے زیادہ جس کے اجرت لینے کا حق ہے، وہ اللہ کی کتاب ہے، اور احمد، ابوداود اور نسائی میں ہے کہ خارجہ کے چچا نے جب سورة فاتحہ سے دیوانے پر جھاڑ پھونک کی تو نبی کریم نے فرمایا: تم اس کی اجرت لے لو، قسم میری عمر کی! لوگ تو جھاڑ پھونک سے جھوٹ پیدا کرتے ہیں تو نے سچ جھاڑ پھونک کر کے کھایا۔ اور تعلیم پر اجرت جائز نہ ہونے کی دلیل عبادہ ؓ کی یہ حدیث ہے، دوسرے ابی ؓ کی حدیث جو آگے آرہی ہے، تیسرے مسند احمد میں عبدالرحمن بن شبل ؓ سے مرفوعاً آیا ہے کہ قرآن پڑھو، اس میں غلو اور جفا مت کرو اور اس سے روٹی مت کھاؤ اور مال مت بڑھاؤ، بزار نے بھی اس کے کئی شاہد ذکر کئے ہیں۔ چوتھی مسند احمد و ترمذی میں عمران بن حصین ؓ سے ہے کہ نبی کریم سے فرمایا: قرآن پڑھو اور اللہ تعالیٰ سے قرآن کا بدلہ مانگو، اس لئے کہ تمہارے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو لوگوں سے قرآن کا عوض مانگیں گے، اس باب میں کئی حدیثیں ہیں۔ لیکن جن علماء نے تعلیم قرآن پر اجرت کے جواز کا فتوی دیا ہے وہ اس اعتبار سے کہ اس کے سیکھنے سکھانے میں معلم نے اپنا وقت لگایا، تو اس کے لئے اس نیک عمل پر اجرت کا لینا وقت کے مقابل جائز ہوا۔
It was narrated that Ubadahh bin Samit said: "I taught people from Ahliss-Suffah the Quran and how to write, and one of them gave me a bow. I said: It is not money, and I can shoot (with it) for the sake of Allah: I asked the Messenger of Allah ﷺ about it and he said: If it would please you to have a necklace of fire placed around your neck, then accept it:" (Hasan)
Top