سنن ابنِ ماجہ - اقامت نماز اور اس کا طریقہ - حدیث نمبر 976
حدیث نمبر: 976
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، ‏‏‏‏‏‏أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْمَشِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي مَعْمَر، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُ مَنَاكِبَنَا فِي الصَّلَاةِ وَيَقُولُ:‏‏‏‏ لَا تَخْتَلِفُوا فَتَخْتَلِفَ قُلُوبُكُمْ، ‏‏‏‏‏‏لِيَلِيَنِّي مِنْكُمْ أُولُوا الْأَحْلَامِ وَالنُّهَى، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ.
امام کے قریب کن لوگوں کا ہونا مستحب ہے ؟
ابومسعود انصاری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز میں ہمارے کندھوں پہ ہاتھ پھیرتے اور فرماتے: الگ الگ نہ رہو، ورنہ تمہارے دل الگ الگ ہوجائیں گے، اور تم میں جو عقل اور شعور والے ہیں وہ میرے نزدیک کھڑے ہوں، پھر وہ لوگ جو عقل و شعور میں ان سے قریب ہوں، پھر وہ جو ان سے قریب ہوں ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصلاة ٢٨ (٤٣٢)، سنن ابی داود/الصلاة ٩٦ (٦٧٤)، سنن النسائی/الإمامة ٢٣ (٨٠٨)، ٢٦ (٨١٣)، (تحفة الأشراف: ٩٩٩٤) مسند احمد (٤/١٢٢)، سنن الدارمی/الصلاة ٥١ (١٣٠٢) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: اختلاف نہ کرو کا مطلب یہ ہے کہ صف میں برابر کھڑے ہو کسی کا کندھا آگے پیچھے نہ رہے، کیونکہ روحانی طور پر اس کا اثر دلوں پر پڑے گا، اور صفوں میں آگے پیچھے ہونے سے لوگوں کے دلوں میں اختلاف پیدا ہوجائے گا، جس سے مسلمانوں کی قوت و شوکت کمزور ہوجائے گی، اور دشمن کا تسلط و غلبہ بڑھے گا، اس سے معلوم ہوا کہ امام کو صفوں کی درستگی کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے، نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امام کے ساتھ پہلی صف میں وہ لوگ کھڑے ہوں جو علم و فضل اور عقل و دانش میں ممتاز ہوں، پھر وہ جو ان سے کم ہوں، پھر وہ جو ان سے کم ہوں۔
It was narrated that Abu Masud Al-Ansari said: "The Messenger of Allah ﷺ used to gently pat our shoulders (to make sure the row was straight) at the time of prayer, saying: Keep (the rows) straight; do not differ from one another lest your hearts should suffer from discord. Let those who are forbearing and wise stand closest to me, then those who are next to them, then those who are next to them."(Sahih)
Top