سنن ابنِ ماجہ - اقامت نماز اور اس کا طریقہ - حدیث نمبر 2311
حدیث نمبر: 1981
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَكَرِيَّا، ‏‏‏‏‏‏عَنْ خَالِدِ بْنِ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْبَهِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَتْ عَائِشَةُ:‏‏‏‏ مَا عَلِمْتُ حَتَّى دَخَلَتْ عَلَيَّ زَيْنَبُ بِغَيْرِ إِذْنٍ وَهِيَ غَضْبَى، ‏‏‏‏‏‏ثُمّ قَالَتْ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَحَسْبُكَ إِذَا قَلَبَتْ بُنَيَّةُ أَبِي بَكْرٍ ذُرَيْعَتَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَقَبَلَتْ عَلَيَّ فَأَعْرَضْتُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ دُونَكِ فَانْتَصِرِي، ‏‏‏‏‏‏فَأَقْبَلْتُ عَلَيْهَا حَتَّى رَأَيْتُهَا وَقَدْ يَبِسَ رِيقُهَا فِي فِيهَا مَا تَرُدُّ عَلَيَّ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَهَلَّلُ وَجْهُهُ.
بیویوں کے ساتھ اچھا برتا کرنا
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ ؓ نے کہا: مجھے معلوم ہونے سے پہلے زینب بنت جحش ؓ میرے گھر میں بغیر اجازت کے آگئیں، وہ غصہ میں تھیں، کہنے لگیں: اللہ کے رسول! کیا آپ کے لیے بس یہی کافی ہے کہ ابوبکر کی بیٹی اپنی آغوش آپ کے لیے وا کر دے؟ اس کے بعد وہ میری طرف متوجہ ہوئیں، میں نے ان سے منہ موڑ لیا، یہاں تک کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے فرمایا: تو بھی اس کی خبر لے اور اس پر اپنی برتری دکھا تو میں ان کی طرف پلٹی، اور میں نے ان کا جواب دیا، یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ ان کا تھوک ان کے منہ میں سوکھ گیا، اور مجھے کوئی جواب نہ دے سکیں، پھر میں نے نبی اکرم ﷺ کی طرف دیکھا تو آپ کا چہرہ کھل اٹھا تھا ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ١٦٣٦٢، ومصباح الزجاجة: ٧٠٤)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٦/٩٣) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: زینب بنت جحش ؓ خاندان قریش کی حسین و جمیل اور صاحب حسب و نسب خاتون تھیں، اور رسول اکرم کی بیویوں میں انہی کو عائشہ ؓ کی برابری کا دعوی تھا، وہ کہتی تھیں: میرا نکاح اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کے اوپر کیا اور تمہارا نکاح تمہارے گھر والوں نے کیا، وہ غصہ میں اس وجہ سے تھیں کہ ام المومنین عائشہ ؓ کی طرف آپ کی توجہ زیادہ تھی، اور وہ آپ سے شکایت کر رہی تھیں، ام المومنین عائشہ ؓ کو انہوں نے حقارتاً بُنَيَّةُ (جو تصغیر ہے بنت کی) کہا یعنی چھوٹی لڑکی، چھوکری، آپ تو عائشہ کے شیدائی اور ان پر فریفتہ ہیں، دوسری بیویوں کی آپ کو فکر ہی نہیں ہے، نہ کسی کا آپ کو خیال ہے، ام المومنین عائشہ ؓ نے اپنی قمیص الٹی اور بانہہ کھولی، ام المومنین عائشہ ؓ کا جواب دینا اور ام المومنین زینب ؓ کا ہار جانا جو ناحق شکایت کرتی تھیں، اس سے آپ کو خوشی ہوئی اور اس کے نتیجے میں آپ کا چہرہ کھل اٹھا، دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے زینب ؓ سے فرمایا: تم نہیں جانتی ہو یہ ابوبکر کی بیٹی ہے۔ سوکنوں کی یہ وقتی غیرت والی لڑائی عائلی زندگی کا ایک خوش کن لازمہ ہے، اس میں شوہر کی عقلمندی اور اس کے حلم و صبر کا امتحان بھی ہے۔
Top