صحيح البخاری - نماز قصر کا بیان - حدیث نمبر 1218
حدیث نمبر: 1218
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ بَلَغَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ بِقُبَاءٍ كَانَ بَيْنَهُمْ شَيْءٌ فَخَرَجَ يُصْلِحُ بَيْنَهُمْ فِي أُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَحُبِسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَانَتِ الصَّلَاةُ فَجَاءَ بِلَالٌإِلَى أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا أَبَا بَكْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ حُبِسَ وَقَدْ حَانَتِ الصَّلَاةُ، ‏‏‏‏‏‏فَهَلْ لَكَ أَنْ تَؤُمَّ النَّاسَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏إِنْ شِئْتَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَقَامَ بِلَالٌ الصَّلَاةَ وَتَقَدَّمَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَكَبَّرَ لِلنَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي فِي الصُّفُوفِ يَشُقُّهَا شَقًّا حَتَّى قَامَ فِي الصَّفِّ فَأَخَذَ النَّاسُ فِي التَّصْفِيحِ،‏‏‏‏ قَالَ سَهْلٌ:‏‏‏‏ التَّصْفِيحُ هُوَ التَّصْفِيقُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَا يَلْتَفِتُ فِي صَلَاتِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا أَكْثَرَ النَّاسُ الْتَفَتَ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَشَارَ إِلَيْهِ يَأْمُرُهُ أَنْ يُصَلِّيَ،‏‏‏‏ فَرَفَعَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَدَهُ فَحَمِدَ اللَّهَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ رَجَعَ الْقَهْقَرَى وَرَاءَهُ حَتَّى قَامَ فِي الصَّفِّ، ‏‏‏‏‏‏وَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى لِلنَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا فَرَغَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَا لَكُمْ حِينَ نَابَكُمْ شَيْءٌ فِي الصَّلَاةِ أَخَذْتُمْ بِالتَّصْفِيحِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّمَا التَّصْفِيحُ لِلنِّسَاءِ مَنْ نَابَهُ شَيْءٌ فِي صَلَاتِهِ فَلْيَقُلْ سُبْحَانَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا أَبَا بَكْرٍ مَا مَنَعَكَ أَنْ تُصَلِّيَ لِلنَّاسِ حِينَ أَشَرْتُ إِلَيْكَ ؟،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو بَكْرٍ:‏‏‏‏ مَا كَانَ يَنْبَغِي لِابْنِ أَبِي قُحَافَةَ أَنْ يُصَلِّيَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
باب: نماز میں کوئی حادثہ پیش آئے تو ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے اور ان سے سہل بن سعد ؓ نے کہ رسول اللہ کو یہ خبر پہنچی کہ قباء کے قبیلہ بنو عمرو بن عوف میں کوئی جھگڑا ہوگیا ہے۔ اس لیے آپ کئی اصحاب کو ساتھ لے کر ان میں صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے۔ وہاں آپ صلح صفائی کے لیے ٹھہر گئے۔ ادھر نماز کا وقت ہوگیا تو بلال ؓ نے ابوبکر ؓ سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں آئے اور نماز کا وقت ہوگیا، تو کیا آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں گے؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں اگر تم چاہتے ہو تو پڑھا دوں گا۔ چناچہ بلال ؓ نے تکبیر کہی اور ابوبکر ؓ نے آگے بڑھ کر نیت باندھ لی۔ اتنے میں رسول اللہ بھی تشریف لے آئے اور صفوں سے گزرتے ہوئے آپ پہلی صف میں آ کھڑے ہوئے، لوگوں نے ہاتھ پر ہاتھ مارنے شروع کردیئے۔ (سہل نے کہا کہ تصفيح کے معنی تصفيق کے ہیں) آپ نے بیان کیا کہ ابوبکر ؓ نماز میں کسی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے۔ لیکن جب لوگوں نے بہت دستکیں دیں تو انہوں نے دیکھا کہ رسول اللہ کھڑے ہیں۔ نبی کریم نے اشارہ سے ابوبکر کو نماز پڑھانے کے لیے کہا۔ اس پر ابوبکر ؓ نے ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور پھر الٹے پاؤں پیچھے کی طرف چلے آئے اور صف میں کھڑے ہوگئے اور رسول اللہ نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی۔ نماز سے فارغ ہو کر آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ لوگو! یہ کیا بات ہے کہ جب نماز میں کوئی بات پیش آتی ہے تو تم تالیاں بجانے لگتے ہو۔ یہ مسئلہ تو عورتوں کے لیے ہے۔ تمہیں اگر نماز میں کوئی حادثہ پیش آئے تو سبحان الله کہا کرو۔ اس کے بعد آپ ابوبکر ؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ ابوبکر! میرے کہنے کے باوجود تم نے نماز کیوں نہیں پڑھائی؟ ابوبکر ؓ نے عرض کیا کہ ابوقحافہ کے بیٹے کو زیب نہیں دیتا کہ رسول اللہ کی موجودگی میں نماز پڑھائے۔
Narrated Sahl bin Sad (RA): The news about the differences amongst the people of Bani Amr bin Auf at Quba reached Allahs Apostle ﷺ and so he went to them along with some of his companions to affect a reconciliation. Allahs Apostle ﷺ was delayed there and the time for the prayer became due. Bilal (RA) came to Abu Bakr! and said, "O Abu Bakr! Allahs Apostle ﷺ is detained (there) and the time for the prayer is due. Will you lead the people in prayer?" Abu Bakr (RA) replied, "Yes, if you wish." So Bilal (RA) pronounced the Iqama and Abu Bakr (RA) went forward and the people said Takbir. In the meantime, Allahs Apostle ﷺ came piercing through the rows till he stood in the (first) row and the people started clapping. Abu Bakr, would never look hither and thither during the prayer but when the people clapped much he looked back and saw Allahs Apostle. The Prophet ﷺ beckoned him to carry on. Abu Bakr (RA) raised both his hands, praised Allah and retreated till he stood in the row and Allahs Apostle ﷺ went forward and led the people in the prayer. When he had finished the prayer, he addressed the people and said, "O people! Why did you start clapping when something happened to you in the prayer? Clapping is for women. Whenever one is confronted with something unusual in the prayer one should say, Sub Han Allah." Then the Prophet ﷺ looked towards Abu Bakr (RA) and asked, "What prevented you from leading the prayer when I beckoned you to carry on?" Abu Bakr (RA) replied, "It does not befit the son of Al Quhafa to lead the prayer in the presence of Allahs Apostle ﷺ ________
Top