صحيح البخاری - غزوات کا بیان - حدیث نمبر 4415
حدیث نمبر: 4415
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَرْسَلَنِي أَصْحَابِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْأَلُهُ الْحُمْلَانَ لَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏إِذْ هُمْ مَعَهُ فِي جَيْشِ الْعُسْرَةِ وَهِيَ غَزْوَةُ تَبُوكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ أَصْحَابِي أَرْسَلُونِي إِلَيْكَ لِتَحْمِلَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ لَا أَحْمِلُكُمْ عَلَى شَيْءٍ، ‏‏‏‏‏‏وَوَافَقْتُهُ وَهُوَ غَضْبَانُ وَلَا أَشْعُرُ، ‏‏‏‏‏‏وَرَجَعْتُ حَزِينًا مِنْ مَنْعِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَمِنْ مَخَافَةِ أَنْ يَكُونَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَدَ فِي نَفْسِهِ عَلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏فَرَجَعْتُ إِلَى أَصْحَابِي فَأَخْبَرْتُهُمُ الَّذِي قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ أَلْبَثْ إِلَّا سُوَيْعَةً إِذْ سَمِعْتُ بِلَالًا يُنَادِي:‏‏‏‏ أَيْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَجَبْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَجِبْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُوكَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا أَتَيْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ خُذْ هَذَيْنِ الْقَرِينَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَيْنِ الْقَرِينَيْنِ لِسِتَّةِ أَبْعِرَةٍ، ‏‏‏‏‏‏ابْتَاعَهُنَّ حِينَئِذٍ مِنْ سَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏فَانْطَلِقْ بِهِنَّ إِلَى أَصْحَابِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْمِلُكُمْ عَلَى هَؤُلَاءِ، ‏‏‏‏‏‏فَارْكَبُوهُنَّ، ‏‏‏‏‏‏فَانْطَلَقْتُ إِلَيْهِمْ بِهِنَّ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْمِلُكُمْ عَلَى هَؤُلَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنِّي وَاللَّهِ لَا أَدَعُكُمْ حَتَّى يَنْطَلِقَ مَعِي بَعْضُكُمْ إِلَى مَنْ سَمِعَ مَقَالَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏لَا تَظُنُّوا أَنِّي حَدَّثْتُكُمْ شَيْئًا لَمْ يَقُلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا لِي:‏‏‏‏ وَاللَّهِ إِنَّكَ عِنْدَنَا لَمُصَدَّقٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَنَفْعَلَنَّ مَا أَحْبَبْتَ، ‏‏‏‏‏‏فَانْطَلَقَ أَبُو مُوسَى بِنَفَرٍ مِنْهُمْ حَتَّى أَتَوْا الَّذِينَ سَمِعُوا قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْعَهُ إِيَّاهُمْ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ إِعْطَاءَهُمْ بَعْدُ، ‏‏‏‏‏‏فَحَدَّثُوهُمْ بِمِثْلِ مَا حَدَّثَهُمْ بِهِ أَبُو مُوسَى.
باب: غزوہ تبوک کا بیان، اس کا دوسرا غزوہ عسرت یعنی (تنگی کا غزوہ) بھی ہے۔
مجھ سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے برید بن عبداللہ بن ابی بردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری ؓ نے بیان کیا کہ مجھے میرے ساتھیوں نے رسول اللہ کی خدمت میں بھیجا کہ میں آپ سے ان کے لیے سواری کے جانوروں کی درخواست کروں۔ وہ لوگ آپ کے ساتھ جیش عسرت (یعنی غزوہ تبوک) میں شریک ہونا چاہتے تھے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے ساتھیوں نے مجھے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے تاکہ آپ ان کے لیے سواری کے جانوروں کا انتظام کرا دیں۔ آپ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں تم کو سواری کے جانور نہیں دے سکتا۔ میں جب آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا تو آپ غصہ میں تھے اور میں اسے معلوم نہ کرسکا تھا۔ آپ کے انکار سے میں بہت غمگین واپس ہوا۔ یہ خوف بھی تھا کہ کہیں آپ سواری مانگنے کی وجہ سے خفا نہ ہوگئے ہوں۔ میں اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور انہیں نبی کریم کے ارشاد کی خبر دی، لیکن ابھی کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ میں نے بلال ؓ کی آواز سنی، وہ پکار رہے تھے، اے عبداللہ بن قیس! میں نے جواب دیا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ تمہیں بلا رہے ہیں۔ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ یہ دو جوڑے اور یہ دو جوڑے اونٹ کے لے جاؤ۔ آپ نے چھ اونٹ عنایت فرمائے۔ ان اونٹوں کو آپ نے اسی وقت سعد ؓ سے خریدا تھا اور فرمایا کہ انہیں اپنے ساتھیوں کو دے دو اور انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے یا آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ نے تمہاری سواری کے لیے انہیں دیا ہے، ان پر سوار ہوجاؤ۔ میں ان اونٹوں کو لے کر اپنے ساتھیوں کے پاس گیا اور ان سے میں نے کہا کہ نبی کریم نے تمہاری سواری کے لیے یہ عنایت فرمائے ہیں لیکن اللہ کی قسم! کہ اب تمہیں ان صحابہ ؓ کے پاس چلنا پڑے گا، جنہوں نے نبی کریم کا انکار فرمانا سنا تھا، کہیں تم یہ خیال نہ کر بیٹھو کہ میں نے تم سے نبی کریم کے ارشاد کے متعلق غلط بات کہہ دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ تمہاری سچائی میں ہمیں کوئی شبہ نہیں ہے لیکن اگر آپ کا اصرار ہے تو ہم ایسا بھی کرلیں گے۔ ابوموسیٰ ؓ ان میں سے چند لوگوں کو لے کر ان صحابہ ؓ کے پاس آئے جنہوں نے نبی کریم کا وہ ارشاد سنا تھا کہ نبی کریم نے پہلے تو دینے سے انکار کیا تھا لیکن پھر عنایت فرمایا۔ ان صحابہ ؓ نے بھی اسی طرح حدیث بیان کی جس طرح ابوموسیٰ ؓ نے ان سے بیان کی تھی۔
Narrated Abu Musa (RA) : My Companions sent me to Allahs Apostle ﷺ to ask him for some animals to ride on as they were accompanying him in the army of Al-Usra, and that was the Ghazwa (Battle) of Tabuk, I said, "O Allahs Prophet! My companions have sent me to you to provide them with means of transportation." He said, "By Allah! I will not make you ride anything." It happened that when I reached him, he was in an angry mood, and I didnt notice it. So I returned in a sad mood because of the refusal the Prophet ﷺ and for the fear that the Prophet ﷺ might have become angry with me. So I returned to my companions and informed them of what the Prophet ﷺ had said. Only a short while had passed when I heard Bilal (RA) calling, "O Abdullah bin Qais (RA) !" I replied to his call. Bilal (RA) said, "Respond to Allahs Apostle ﷺ who is calling you." When I went to him (i.e. the Prophet), he said, "Take these two camels tied together and also these two camels tied together," referring to six camels he had brought them from Sad at that time. The Prophet ﷺ added, "Take them to your companions and say, Allah (or Allahs Apostle) ﷺ allows you to ride on these, so ride on them." So I took those camels to them and said, "The Prophet ﷺ allows you to ride on these (camels) but by Allah, I will not leave you till some of you proceed with me to somebody who heard the statement of Allahs Apostle. Do not think that I narrate to you a thing which Allahs Apostle ﷺ has not said." They said to me, "We consider you truthful, and we will do what you like." The sub-narrator added: So Abu Musa (RA) proceeded along with some of them till they came to those who have heard the statement of Allahs Apostle ﷺ wherein he denied them (some animals to ride on) and (his statement) whereby he gave them the same. So these people told them the same information as Abu Musa (RA) had told them.
Top