صحيح البخاری - غزوات کا بیان - حدیث نمبر 4240
حدیث نمبر: 4240 - 4241
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُقَيْلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام بِنْتَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَتْ إِلَى أَبِي بَكْرٍ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْهِ بِالْمَدِينَةِ،‏‏‏‏ وَفَدَكٍ وَمَا بَقِيَ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ:‏‏‏‏ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْمَالِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا أُغَيِّرُ شَيْئًا مِنْ صَدَقَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ حَالِهَا الَّتِي كَانَ عَلَيْهَا فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَأَعْمَلَنَّ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ أَنْ يَدْفَعَ إِلَى فَاطِمَةَ مِنْهَا شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ فِي ذَلِكَ فَهَجَرَتْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ تُكَلِّمْهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ، ‏‏‏‏‏‏وَعَاشَتْ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِيٌّ لَيْلًا، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يُؤْذِنْ بِهَا أَبَا بَكْرٍ وَصَلَّى عَلَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ لِعَلِيٍّ مِنَ النَّاسِ وَجْهٌ حَيَاةَ فَاطِمَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا تُوُفِّيَتِ اسْتَنْكَرَ عَلِيٌّ وُجُوهَ النَّاسِ فَالْتَمَسَ مُصَالَحَةَ أَبِي بَكْرٍ وَمُبَايَعَتَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَكُنْ يُبَايِعُ تِلْكَ الْأَشْهُرَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَرْسَلَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ أَنِ ائْتِنَا وَلَا يَأْتِنَا أَحَدٌ مَعَكَ كَرَاهِيَةً لِمَحْضَرِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ لَا وَاللَّهِ لَا تَدْخُلُ عَلَيْهِمْ وَحْدَكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ:‏‏‏‏ وَمَا عَسَيْتَهُمْ أَنْ يَفْعَلُوا بِي، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهِ لآتِيَنَّهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَدَخَلَ عَلَيْهِمْ أَبُو بَكْرٍ فَتَشَهَّدَ عَلِيٌّ فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّا قَدْ عَرَفْنَا فَضْلَكَ وَمَا أَعْطَاكَ اللَّهُ وَلَمْ نَنْفَسْ عَلَيْكَ خَيْرًا سَاقَهُ اللَّهُ إِلَيْكَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنَّكَ اسْتَبْدَدْتَ عَلَيْنَا بِالْأَمْرِ، ‏‏‏‏‏‏وَكُنَّا نَرَى لِقَرَابَتِنَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَصِيبًا حَتَّى فَاضَتْ عَيْنَا أَبِي بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا تَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ قَالَ:‏‏‏‏ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَرَابَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ أَصِلَ مِنْ قَرَابَتِي، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا الَّذِي شَجَرَ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ مِنْ هَذِهِ الْأَمْوَالِ فَلَمْ آلُ فِيهَا عَنِ الْخَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ أَتْرُكْ أَمْرًا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُهُ فِيهَا إِلَّا صَنَعْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عَلِيٌّ لِأَبِي بَكْرٍ:‏‏‏‏ مَوْعِدُكَ الْعَشِيَّةَ لِلْبَيْعَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا صَلَّى أَبُو بَكْرٍ الظُّهْرَ رَقِيَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَتَشَهَّدَ وَذَكَرَ شَأْنَ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَتَخَلُّفَهُ عَنِ الْبَيْعَةِ وَعُذْرَهُ بِالَّذِي اعْتَذَرَ إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ اسْتَغْفَرَ وَتَشَهَّدَ عَلِيٌّ، ‏‏‏‏‏‏فَعَظَّمَ حَقَّ أَبِي بَكْرٍ وَحَدَّثَ أَنَّهُ لَمْ يَحْمِلْهُ عَلَى الَّذِي صَنَعَ نَفَاسَةً عَلَىأَبِي بَكْرٍ وَلَا إِنْكَارًا لِلَّذِي فَضَّلَهُ اللَّهُ بِهِ وَلَكِنَّا نَرَى لَنَا فِي هَذَا الْأَمْرِ نَصِيبًا، ‏‏‏‏‏‏فَاسْتَبَدَّ عَلَيْنَا، ‏‏‏‏‏‏فَوَجَدْنَا فِي أَنْفُسِنَا، ‏‏‏‏‏‏فَسُرَّ بِذَلِكَ الْمُسْلِمُونَ وَقَالُوا:‏‏‏‏ أَصَبْتَ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ الْمُسْلِمُونَ إِلَى عَلِيٍّ قَرِيبًا حِينَ رَاجَعَ الْأَمْرَ الْمَعْرُوفَ.
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ‘ ان سے عقیل نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ ان سے عروہ نے ‘ ان سے عائشہ ؓ نے کہ نبی کریم کی صاحبزادی فاطمہ ؓ نے ابوبکر صدیق ؓ کے پاس کسی کو بھیجا اور ان سے اپنی میراث کا مطالبہ کیا نبی کریم کے اس مال سے جو آپ کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ اور فدک میں عنایت فرمایا تھا اور خیبر کا جو پانچواں حصہ رہ گیا تھا۔ ابوبکر ؓ نے یہ جواب دیا کہ نبی کریم نے خود ہی ارشاد فرمایا تھا کہ ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا ‘ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے ‘ البتہ آل محمد اسی مال سے کھاتی رہے گی اور میں، اللہ کی قسم! جو صدقہ نبی کریم چھوڑ گئے ہیں اس میں کسی قسم کا تغیر نہیں کروں گا۔ جس حال میں وہ آپ کے عہد میں تھا اب بھی اسی طرح رہے گا اور اس میں (اس کی تقسیم وغیرہ) میں میں بھی وہی طرز عمل اختیار کروں گا جو آپ کا اپنی زندگی میں تھا۔ غرض ابوبکر ؓ نے فاطمہ ؓ کو کچھ بھی دینا منظور نہ کیا۔ اس پر فاطمہ ؓ ابوبکر ؓ کی طرف سے خفا ہوگئیں اور ان سے ترک ملاقات کرلیا اور اس کے بعد وفات تک ان سے کوئی گفتگو نہیں کی۔ فاطمہ ؓ آپ کے بعد چھ مہینے تک زندہ رہیں۔ جب ان کی وفات ہوئی تو ان کے شوہر علی ؓ نے انہیں رات میں دفن کردیا اور ابوبکر ؓ کو اس کی خبر نہیں دی اور خود ان کی نماز جنازہ پڑھ لی۔ فاطمہ ؓ جب تک زندہ رہیں علی ؓ پر لوگ بہت توجہ رکھتے رہے لیکن ان کی وفات کے بعد انہوں نے دیکھا کہ اب لوگوں کے منہ ان کی طرف سے پھرے ہوئے ہیں۔ اس وقت انہوں نے ابوبکر ؓ سے صلح کرلینا اور ان سے بیعت کرلینا چاہا۔ اس سے پہلے چھ ماہ تک انہوں نے ابوبکر ؓ سے بیعت نہیں کی تھی پھر انہوں نے ابوبکر ؓ کو بلا بھیجا اور کہلا بھیجا کہ آپ صرف تنہا آئیں اور کسی کو اپنے ساتھ نہ لائیں ان کو یہ منظور نہ تھا کہ عمر ؓ ان کے ساتھ آئیں۔ عمر ؓ نے ابوبکر ؓ سے کہا کہ اللہ کی قسم! آپ تنہا ان کے پاس نہ جائیں۔ ابوبکر ؓ نے کہا کیوں وہ میرے ساتھ کیا کریں گے میں تو اللہ کی قسم! ضرور ان کی پاس جاؤں گا۔ آخر آپ علی ؓ کے یہاں گئے۔ علی ؓ نے اللہ کو گواہ کیا ‘ اس کے بعد فرمایا ہمیں آپ کے فضل و کمال اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بخشا ہے ‘ سب کا ہمیں اقرار ہے جو خیر و امتیاز آپ کو اللہ تعالیٰ نے دیا تھا ہم نے اس میں کوئی ریس بھی نہیں کی لیکن آپ نے ہمارے ساتھ زیادتی کی (کہ خلافت کے معاملہ میں ہم سے کوئی مشورہ نہیں لیا) ہم رسول اللہ کے ساتھ اپنی قرابت کی وجہ سے اپنا حق سمجھتے تھے (کہ آپ ہم سے مشورہ کرتے) ابوبکر ؓ پر ان باتوں سے گریہ طاری ہوگئی اور جب بات کرنے کے قابل ہوئے تو فرمایا اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے رسول اللہ کی قرابت کے ساتھ صلہ رحمی مجھے اپنی قرابت سے صلہ رحمی سے زیادہ عزیز ہے۔ لیکن میرے اور لوگوں کے درمیان ان اموال کے سلسلے میں جو اختلاف ہوا ہے تو میں اس میں حق اور خیر سے نہیں ہٹا ہوں اور اس سلسلہ میں جو راستہ میں نے نبی کریم کا دیکھا خود میں نے بھی اسی کو اختیار کیا۔ علی ؓ نے اس کے بعد ابوبکر ؓ سے کہا کہ دوپہر کے بعد میں آپ سے بیعت کروں گا۔ چناچہ ظہر کی نماز سے فارغ ہو کر ابوبکر ؓ منبر پر آئے اور خطبہ کے بعد علی ؓ کے معاملے کا اور ان کے اب تک بیعت نہ کرنے کا ذکر کیا اور وہ عذر بھی بیان کیا جو علی ؓ نے پیش کیا تھا پھر علی ؓ نے استغفار اور شہادت کے بعد ابوبکر ؓ کا حق اور ان کی بزرگی بیان کی اور فرمایا کہ جو کچھ انہوں نے کیا ہے اس کا باعث ابوبکر ؓ سے حسد نہیں تھا اور نہ ان کے فضل و کمال کا انکار مقصود تھا جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عنایت فرمایا یہ بات ضرور تھی کہ ہم اس معاملہ خلافت میں اپنا حق سمجھتے تھے (کہ ہم سے مشورہ لیا جاتا) ہمارے ساتھ یہی زیادتی ہوئی تھی جس سے ہمیں رنج پہنچا۔ مسلمان اس واقعہ پر بہت خوش ہوئے اور کہا کہ آپ نے درست فرمایا۔ جب علی ؓ نے اس معاملہ میں یہ مناسب راستہ اختیار کرلیا تو مسلمان ان سے خوش ہوگئے اور علی ؓ سے اور زیادہ محبت کرنے لگے جب دیکھا کہ انہوں نے اچھی بات اختیار کرلی ہے۔
Narrated Aisha (RA) : Fatima the daughter of the Prophet ﷺ sent someone to Abu Bakr (RA) (when he was a caliph), asking for her inheritance of what Allahs Apostle ﷺ had left of the property bestowed on him by Allah from the Fai (i.e. booty gained without fighting) in Medina, and Fadak, and what remained of the Khumus of the Khaibar booty. On that, Abu Bakr (RA) said, "Allahs Apostle ﷺ said, "Our property is not inherited. Whatever we leave, is Sadaqa, but the family of (the Prophet) Muhammad can eat of this property. By Allah, I will not make any change in the state of the Sadaqa of Allahs Apostle ﷺ and will leave it as it was during the lifetime of Allahs Apostle, and will dispose of it as Allahs Apostle ﷺ used to do." So Abu Bakr (RA) refused to give anything of that to Fatima. So she became angry with Abu Bakr (RA) and kept away from him, and did not task to him till she died. She remained alive for six months after the death of the Prophet. When she died, her husband Ali, buried her at night without informing Abu Bakr (RA) and he said the funeral prayer by himself. When Fatima was alive, the people used to respect Ali much, but after her death, Ali noticed a change in the peoples attitude towards him. So Ali sought reconciliation with Abu Bakr (RA) and gave him an oath of allegiance. Ali had not given the oath of allegiance during those months (i.e. the period between the Prophets death and Fatimas death). Ali sent someone to Abu Bakr (RA) saying, "Come to us, but let nobody come with you," as he disliked that Umar should come, Umar said (to Abu Bakr), "No, by Allah, you shall not enter upon them alone " Abu Bakr (RA) said, "What do you think they will do to me? By Allah, I will go to them So Abu Bakr (RA) entered upon them, and then Ali uttered Tashah-hud and said (to Abu Bakr), "We know well your superiority and what Allah has given you, and we are not jealous of the good what Allah has bestowed upon you, but you did not consult us in the question of the rule and we thought that we have got a right in it because of our near relationship to Allahs Apostle ﷺ ." Thereupon Abu Bakrs eyes flowed with tears. And when Abu Bakr (RA) spoke, he said, "By Him in Whose Hand my soul is to keep good relations with the relatives of Allahs Apostle ﷺ is dearer to me than to keep good relations with my own relatives. But as for the trouble which arose between me and you about his property, I will do my best to spend it according to what is good, and will not leave any rule or regulation which I saw Allahs Apostle ﷺ following, in disposing of it, but I will follow." On that Ali said to Abu Bakr, "I promise to give you the oath of allegiance in this after noon." So when Abu Bakr (RA) had offered the Zuhr prayer, he ascended the pulpit and uttered the Tashah-hud and then mentioned the story of Ali and his failure to give the oath of allegiance, and excused him, accepting what excuses he had offered; Then Ali (got up) and praying (to Allah) for forgiveness, he uttered Tashah-hud, praised Abu Bakrs right, and said, that he had not done what he had done because of jealousy of Abu Bakr (RA) or as a protest of that Allah had favored him with. Ali added, "But we used to consider that we too had some right in this affair (of rulership) and that he (i.e. Abu Bakr) did not consult us in this matter, and therefore caused us to feel sorry." On that all the Muslims became happy and said, "You have done the right thing." The Muslims then became friendly with Ali as he returned to what the people had done (i.e. giving the oath of allegiance to Abu Bakr).
Top