صحيح البخاری - غزوات کا بیان - حدیث نمبر 3989
حدیث نمبر: 3989
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ أَسِيدِ بْنِ جَارِيَةَ الثَّقَفِيُّحَلِيفُ بَنِي زُهْرَةَ،‏‏‏‏ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشَرَةً عَيْنًا،‏‏‏‏ وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَاصِمَ بْنَ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيَّ جَدَّ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ حَتَّى إِذَا كَانُوا بِالْهَدَةِ بَيْنَ عَسْفَانَ وَمَكَّةَ ذُكِرُوا لِحَيٍّ مِنْ هُذَيْلٍ، ‏‏‏‏‏‏يُقَالُ لَهُمْ:‏‏‏‏ بَنُو لِحْيَانَ فَنَفَرُوا لَهُمْ بِقَرِيبٍ مِنْ مِائَةِ رَجُلٍ رَامٍ،‏‏‏‏ فَاقْتَصُّوا آثَارَهُمْ حَتَّى وَجَدُوا مَأْكَلَهُمُ التَّمْرَ فِي مَنْزِلٍ نَزَلُوهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ تَمْرُ يَثْرِبَ فَاتَّبَعُوا آثَارَهُمْ،‏‏‏‏ فَلَمَّا حَسَّ بِهِمْ عَاصِمٌ وَأَصْحَابُهُ لَجَئُوا إِلَى مَوْضِعٍ فَأَحَاطَ بِهِمُ الْقَوْمُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا لَهُمْ:‏‏‏‏ انْزِلُوا فَأَعْطُوا بِأَيْدِيكُمْ وَلَكُمُ الْعَهْدُ وَالْمِيثَاقُ أَنْ لَا نَقْتُلَ مِنْكُمْ أَحَدًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عَاصِمُ بْنُ ثَابِتٍ:‏‏‏‏ أَيُّهَا الْقَوْمُ أَمَّا أَنَا فَلَا أَنْزِلُ فِي ذِمَّةِ كَافِرٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ أَخْبِرْ عَنَّا نَبِيَّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ فَرَمَوْهُمْ بِالنَّبْلِ،‏‏‏‏ فَقَتَلُوا عَاصِمًا وَنَزَلَ إِلَيْهِمْ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ عَلَى الْعَهْدِ وَالْمِيثَاقِ مِنْهُمْ خُبَيْبٌ،‏‏‏‏ وَزَيْدُ بْنُ الدَّثِنَةِ وَرَجُلٌ آخَرُ،‏‏‏‏ فَلَمَّا اسْتَمْكَنُوا مِنْهُمْ أَطْلَقُوا أَوْتَارَ قِسِيِّهِمْ فَرَبَطُوهُمْ بِهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ الرَّجُلُ الثَّالِثُ:‏‏‏‏ هَذَا أَوَّلُ الْغَدْرِ،‏‏‏‏ وَاللَّهِ لَا أَصْحَبُكُمْ إِنَّ لِي بِهَؤُلَاءِ أُسْوَةً يُرِيدُ الْقَتْلَى فَجَرَّرُوهُ وَعَالَجُوهُ،‏‏‏‏ فَأَبَى أَنْ يَصْحَبَهُمْ فَانْطُلِقَ بِخُبَيْبٍ،‏‏‏‏ وَزَيْدِ بْنِ الدَّثِنَةِ حَتَّى بَاعُوهُمَا بَعْدَ وَقْعَةِ بَدْرٍ فَابْتَاعَ بَنُو الْحَارِثِ بْنِ عَامِرِ بْنِ نَوْفَلٍ خُبَيْبًا وَكَانَ خُبَيْبٌ هُوَ قَتَلَ الْحَارِثَ بْنَ عَامِرٍ يَوْمَ بَدْرٍ فَلَبِثَ خُبَيْبٌ عِنْدَهُمْ أَسِيرًا حَتَّى أَجْمَعُوا قَتْلَهُ،‏‏‏‏ فَاسْتَعَارَ مِنْ بَعْضِ بَنَاتِ الْحَارِثِ مُوسًى يَسْتَحِدُّ بِهَا،‏‏‏‏ فَأَعَارَتْهُ فَدَرَجَ بُنَيٌّ لَهَا وَهِيَ غَافِلَةٌ حَتَّى أَتَاهُ،‏‏‏‏ فَوَجَدَتْهُ مُجْلِسَهُ عَلَى فَخِذِهِ وَالْمُوسَى بِيَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَفَزِعْتُ فَزْعَةً عَرَفَهَا خُبَيْبٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَتَخْشَيْنَ أَنْ أَقْتُلَهُ مَا كُنْتُ لِأَفْعَلَ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ أَسِيرًا قَطُّ خَيْرًا مِنْ خُبَيْبٍ،‏‏‏‏ وَاللَّهِ لَقَدْ وَجَدْتُهُ يَوْمًا يَأْكُلُ قِطْفًا مِنْ عِنَبٍ فِي يَدِهِ وَإِنَّهُ لَمُوثَقٌ بِالْحَدِيدِ،‏‏‏‏ وَمَا بِمَكَّةَ مِنْ ثَمَرَةٍ،‏‏‏‏ وَكَانَتْ تَقُولُ إِنَّهُ لَرِزْقٌ رَزَقَهُ اللَّهُ خُبَيْبًا،‏‏‏‏ فَلَمَّا خَرَجُوا بِهِ مِنَ الْحَرَمِ لِيَقْتُلُوهُ فِي الْحِلِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ لَهُمْ خُبَيْبٌ:‏‏‏‏ دَعُونِي أُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ،‏‏‏‏ فَتَرَكُوهُ فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ لَوْلَا أَنْ تَحْسِبُوا أَنَّ مَا بِي جَزَعٌ لَزِدْتُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ أَحْصِهِمْ عَدَدًا،‏‏‏‏ وَاقْتُلْهُمْ بَدَدًا وَلَا تُبْقِ مِنْهُمْ أَحَدًا،‏‏‏‏ ثُمَّ أَنْشَأَ يَقُولُ:‏‏‏‏ فَلَسْتُ أُبَالِي حِينَ أُقْتَلُ مُسْلِمًا عَلَى أَيِّ جَنْبٍ كَانَ لِلَّهِ مَصْرَعِي وَذَلِكَ فِي ذَاتِ الْإِلَهِ وَإِنْ يَشَأْ يُبَارِكْ عَلَى أَوْصَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعِ ثُمَّ قَامَ إِلَيْهِ أَبُو سِرْوَعَةَ عُقْبَةُ بْنُ الْحَارِثِ فَقَتَلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ خُبَيْبٌ هُوَ سَنَّ لِكُلِّ مُسْلِمٍ قُتِلَ صَبْرًا الصَّلَاةَ،‏‏‏‏ وَأَخْبَرَ أَصْحَابَهُ يَوْمَ أُصِيبُوا خَبَرَهُمْ،‏‏‏‏ وَبَعَثَ نَاسٌ مِنْ قُرَيْشٍ إِلَى عَاصِمِ بْنِ ثَابِتٍ حِينَ حُدِّثُوا أَنَّهُ قُتِلَ أَنْ يُؤْتَوْا بِشَيْءٍ مِنْهُ يُعْرَفُ،‏‏‏‏ وَكَانَ قَتَلَ رَجُلًا عَظِيمًا مِنْ عُظَمَائِهِمْ،‏‏‏‏ فَبَعَثَ اللَّهُ لِعَاصِمٍ مِثْلَ الظُّلَّةِ مِنَ الدَّبْرِ فَحَمَتْهُ مِنْ رُسُلِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَقْدِرُوا أَنْ يَقْطَعُوا مِنْهُ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ:‏‏‏‏ ذَكَرُوا مَرَارَةَ بْنَ الرَّبِيعِ الْعَمْرِيَّ وَهِلَالَ بْنَ أُمَيَّةَ الْوَاقِفِيَّ رَجُلَيْنِ صَالِحَيْنِ قَدْ شَهِدَا بَدْرًا.
باب: بدر کی لڑائی میں حاضر ہونے والوں کی فضیلت کا بیان۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، ہم سے ابراہیم نے بیان کیا، انہیں ابن شہاب نے خبر دی، کہا کہ مجھے عمر بن اسید بن جاریہ ثقفی نے خبر دی جو بنی زہرہ کے حلیف تھے اور ابوہریرہ ؓ کے شاگردوں میں شامل تھے کہ ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ نبی کریم نے دس جاسوس بھیجے اور ان کا امیر عاصم بن ثابت انصاری ؓ کو بنایا جو عاصم بن عمر بن خطاب ؓ کے نانا ہوتے ہیں۔ جب یہ لوگ عسفان اور مکہ کے درمیان مقام ہدہ پر پہنچے تو بنی ہذیل کے ایک قبیلہ کو ان کے آنے کی اطلاع مل گئی۔ اس قبیلہ کا نام بنی لحیان تھا۔ اس کے سو تیرانداز ان صحابہ ؓ کی تلاش میں نکلے اور ان کے نشان قدم کے اندازے پر چلنے لگے۔ آخر اس جگہ پہنچ گئے جہاں بیٹھ کر ان صحابہ ؓ نے کھجور کھائی تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ یثرب (مدینہ) کی کھجور (کی گٹھلیاں) ہیں۔ اب پھر وہ ان کے نشان قدم کے اندازے پر چلنے لگے۔ جب عاصم بن ثابت ؓ اور ان کے ساتھیوں نے ان کے آنے کو معلوم کرلیا تو ایک (محفوظ) جگہ پناہ لی۔ قبیلہ والوں نے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا اور کہا کہ نیچے اتر آؤ اور ہماری پناہ خود قبول کرلو تو تم سے ہم وعدہ کرتے ہیں کہ تمہارے کسی آدمی کو بھی ہم قتل نہیں کریں گے۔ عاصم بن ثابت ؓ نے کہا۔ مسلمانو! میں کسی کافر کی پناہ میں نہیں اتر سکتا۔ پھر انہوں نے دعا کی، اے اللہ! ہمارے حالات کی خبر اپنے نبی کو کر دے آخر قبیلہ والوں نے مسلمانوں پر تیر اندازی کی اور عاصم ؓ کو شہید کردیا۔ بعد میں ان کے وعدہ پر تین صحابہ اتر آئے۔ یہ حضرات خبیب، زید بن دثنہ اور ایک تیسرے صحابی تھے۔ قبیلہ والوں نے جب ان تینوں صحابیوں پر قابو پا لیا تو ان کی کمان سے تانت نکال کر اسی سے انہیں باندھ دیا۔ تیسرے صحابی نے کہا، یہ تمہاری پہلی دغا بازی ہے میں تمہارے ساتھ کبھی نہیں جاسکتا۔ میرے لیے تو انہیں کی زندگی نمونہ ہے۔ آپ کا اشارہ ان صحابہ کی طرف تھا جو ابھی شہید کئے جا چکے تھے۔ کفار نے انہیں گھسیٹنا شروع کیا اور زبردستی کی لیکن وہ کسی طرح ان کے ساتھ جانے پر تیار نہ ہوئے۔ (تو انہوں نے ان کو بھی شہید کردیا) اور خبیب ؓ اور زید بن دثنہ ؓ کو ساتھ لے گئے اور (مکہ میں لے جا کر) انہیں بیچ دیا۔ یہ بدر کی لڑائی کے بعد کا واقعہ ہے۔ حارث بن عامر بن نوفل کے لڑکوں نے خبیب رضی اللہ کو خرید لیا۔ انہوں ہی نے بدر کی لڑائی میں حارث بن عامر کو قتل کیا تھا۔ کچھ دنوں تک تو وہ ان کے یہاں قید رہے آخر انہوں نے ان کے قتل کا ارادہ کیا۔ انہیں دنوں حارث کی کسی لڑکی سے انہوں نے زیر ناف بال صاف کرنے کے لیے استرہ مانگا۔ اس نے دے دیا۔ اس وقت اس کا ایک چھوٹا سا بچہ ان کے پاس (کھیلتا ہوا) اس عورت کی بیخبر ی میں چلا گیا۔ پھر جب وہ ان کی طرف آئی تو دیکھا کہ بچہ ان کی ران پر بیٹھا ہوا ہے۔ اور استرہ ان کے ہاتھ میں ہے انہوں نے بیان کیا کہ یہ دیکھتے ہی وہ اس درجہ گھبرا گئی کہ خبیب ؓ نے اس کی گھبراہٹ کو دیکھ لیا اور بولے، کیا تمہیں اس کا خوف ہے کہ میں اس بچے کو قتل کر دوں گا؟ یقین رکھو کہ ایسا ہرگز نہیں کرسکتا۔ ان خاتون نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم! میں نے کبھی کوئی قیدی خبیب ؓ سے بہتر نہیں دیکھا۔ اللہ کی قسم! میں نے ایک دن انگور کے ایک خوشہ سے انہیں انگور کھاتے دیکھا جو ان کے ہاتھ میں تھا حالانکہ وہ لوہے کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور مکہ میں اس وقت کوئی پھل بھی نہیں تھا۔ وہ بیان کرتی تھیں کہ وہ تو اللہ کی طرف سے بھیجی ہوئی روزی تھی جو اس نے خبیب ؓ کے لیے بھیجی تھی۔ پھر بنو حارثہ انہیں قتل کرنے کے لیے حرم سے باہر لے جانے لگے تو خبیب ؓ نے ان سے کہا کہ مجھے دو رکعت نماز پڑھنے کی اجازت دے دو۔ انہوں نے اس کی اجازت دی تو انہوں نے دو رکعت نماز پڑھی اور فرمایا: اللہ کی قسم! اگر تمہیں یہ خیال نہ ہونے لگتا کہ مجھے گھبراہٹ ہے (موت سے) تو اور زیادہ دیر تک پڑھتا۔ پھر انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ! ان میں سے ہر ایک کو الگ الگ ہلاک کر اور ایک کو بھی باقی نہ چھوڑ اور یہ اشعار پڑھے جب میں اسلام پر قتل کیا جا رہا ہوں تو مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ اللہ کی راہ میں مجھے کس پہلو پر پچھاڑا جائے گا اور یہ تو صرف اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہے۔ اگر وہ چاہے گا تو میرے جسم کے ایک ایک جوڑ پر ثواب عطا فرمائے گا۔ اس کے بعد ابوسروعہ عقبہ بن حارث ان کی طرف بڑھا اور اس نے انہیں شہید کردیا۔ خبیب ؓ نے اپنے عمل حسن سے ہر اس مسلمان کے لیے جسے قید کر کے قتل کیا جائے (قتل سے پہلے دو رکعت) نماز کی سنت قائم کی ہے۔ ادھر جس دن ان صحابہ ؓ پر مصیبت آئی تھی آپ نے اپنے صحابہ ؓ کو اسی دن اس کی خبر دے دی تھی۔ قریش کے کچھ لوگوں کو جب معلوم ہوا کہ عاصم بن ثابت ؓ شہید کر دئیے گئے ہیں تو ان کے پاس اپنے آدمی بھیجے تاکہ ان کے جسم کا کوئی ایسا حصہ لائیں جس سے انہیں پہچانا جاسکے۔ کیونکہ انہوں نے بھی (بدر میں) ان کے ایک سردار (عقبہ بن ابی معیط) کو قتل کیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی لاش پر بادل کی طرح بھڑوں کی ایک فوج بھیج دی اور انہوں نے آپ کی لاش کو کفار قریش کے ان آدمیوں سے بچا لیا اور وہ ان کے جسم کا کوئی حصہ بھی نہ کاٹ سکے اور کعب بن مالک ؓ نے بیان کیا کہ میرے سامنے لوگوں نے مرارہ بن ربیع عمری ؓ اور ہلال بن امیہ واقفی ؓ کا ذکر کیا۔ (جو غزوہ تبوک میں نہیں جاسکے تھے) کہ وہ صالح صحابیوں میں سے ہیں اور بدر کی لڑائی میں شریک ہوئے تھے۔
Narrated Abu Hurairah (RA): Allahs Apostle ﷺ sent out ten spies under the command of Asim bin Thabit Al-Ansari, the grand-father of Asim bin Umar Al-Khattab. When they reached (a place called) Al-Hadah between Usfan and Makkah, their presence was made known to a sub-tribe of Hudhail called Banu Lihyan. So they sent about one hundred archers after them. The archers traced the footsteps (of the Muslims) till they found the traces of dates which they had eaten at one of their camping places. The archers said, "These dates are of Yathrib (i.e. Medina)," and went on tracing the Muslims footsteps. When Asim and his companions became aware of them, they took refuge in a (high) place. But the enemy encircled them and said, "Come down and surrender. We give you a solemn promise and covenant that we will not kill anyone of you." Asim bin Thabit said, "O people! As for myself, I will never get down to be under the protection of an infidel. O Allah! Inform your Prophet ﷺ about us." So the archers threw their arrows at them and martyred Asim. Three of them came down and surrendered to them, accepting their promise and covenant and they were Khubaib, Zaid bin Ad-Dathina and another man. When the archers got hold of them, they untied the strings of the arrow bows and tied their captives with them. The third man said, "This is the first proof of treachery! By Allah, I will not go with you for I follow the example of these." He meant the martyred companions. The archers dragged him and struggled with him (till they martyred him). Then Khubaib and Zaid bin Ad-Dathina were taken away by them and later on they sold them as slaves in Makkah after the event of the Badr battle. The sons of Al-Harit bin Amr bin Naufal bought Khubaib for he was a person who had killed (their father) Al-Hari bin Amr on the day (of the battle) of Badr. Khubaib remained imprisoned by them till they decided unanimously to kill him. One day Khubaib borrowed from a daughter of Al-Harith, a razor for shaving his public hair, and she lent it to him. By chance, while she was inattentive, a little son of hers went to him (i.e. Khubaib) and she saw that Khubaib had seated him on his thigh while the razor was in his hand. She was so much terrified that Khubaib noticed her fear and said, "Are you afraid that I will kill him? Never would I do such a thing." Later on (while narrating the story) she said, "By Allah, I had never seen a better captive than Khubaib. By Allah, one day I saw him eating from a bunch of grapes in his hand while he was fettered with iron chains and (at that time) there was no fruit in Makkah." She used to say," It was food Allah had provided Khubaib with." When they took him to Al-Hil out of Makkah sanctuary to martyr him, Khubaib requested them. "Allow me to offer a two-Rakat prayer." They allowed him and he prayed two Rakat and then said, "By Allah! Had I not been afraid that you would think I was worried, I would have prayed more." Then he (invoked evil upon them) saying, "O Allah! Count them and kill them one by one, and do not leave anyone of them" Then he recited: "As I am martyred as a Muslim, I do not care in what way I receive my death for Allahs Sake, for this is for the Cause of Allah. If He wishes, He will bless the cut limbs of my body." Then Abu Sarva, Ubqa bin Al-Harith went up to him and killed him. It was Khubaib who set the tradition of praying for any Muslim to be martyred in captivity (before he is executed). The Prophet ﷺ told his companions of what had happened (to those ten spies) on the same day they were martyred. Some Quraish people, being informed of Asim bin Thabits death, sent some messengers to bring a part of his body so that his death might be known for certain, for he had previously killed one of their leaders (in the battle of Badr). But Allah sent a swarm of wasps to protect the dead body of Asim, and they shielded him from the messengers who could not cut anything from his body.
Top