صحيح البخاری - علم کا بیان - حدیث نمبر 67
لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى:‏‏‏‏ ‏‏‏‏فَاعْلَمْ أَنَّهُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ‏‏‏‏ فَبَدَأَ بِالْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَّ الْعُلَمَاءَ هُمْ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ- وَرَّثُوا الْعِلْمَ- مَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَطْلُبُ بِهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ. وَقَالَ جَلَّ ذِكْرُهُ:‏‏‏‏ ‏‏‏‏إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ‏‏‏‏ وَقَالَ:‏‏‏‏ ‏‏‏‏وَمَا يَعْقِلُهَا إِلاَّ الْعَالِمُونَ‏‏‏‏، ‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏وَقَالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ‏‏‏‏. وَقَالَ:‏‏‏‏ ‏‏‏‏هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ‏‏‏‏. وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّمَا الْعِلْمُ بِالتَّعَلُّمِ. وَقَالَ أَبُو ذَرٍّ لَوْ وَضَعْتُمُ الصَّمْصَامَةَ عَلَى هَذِهِ وَأَشَارَ إِلَى قَفَاهُ- ثُمَّ ظَنَنْتُ أَنِّي أُنْفِذُ كَلِمَةً سَمِعْتُهَا مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ تُجِيزُوا عَلَيَّ لأَنْفَذْتُهَا. وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:‏‏‏‏ ‏‏‏‏كُونُوا رَبَّانِيِّينَ‏‏‏‏ حُكَمَاءَ فُقَهَاءَ. وَيُقَالُ الرَّبَّانِيُّ الَّذِي يُرَبِّي النَّاسَ بِصِغَارِ الْعِلْمِ قَبْلَ كِبَارِهِ.
باب: رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد کی تفصیل میں کہ بسا اوقات وہ شخص جسے (حدیث) پہنچائی جائے سننے والے سے زیادہ (حدیث کو) یاد رکھ لیتا ہے۔
اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: فاعلم أنه لا إله إلا الله‏ (آپ جان لیجیئے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے) تو (گویا) اللہ تعالیٰ نے علم سے ابتداء فرمائی اور (حدیث میں ہے) کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ (اور) پیغمبروں نے علم (ہی) کا ورثہ چھوڑا ہے۔ پھر جس نے علم حاصل کیا اس نے (دولت کی) بہت بڑی مقدار حاصل کرلی۔ اور جو شخص کسی راستے پر حصول علم کے لیے چلے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کی راہ آسان کردیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔ اور (دوسری جگہ) فرمایا اور اس کو عالموں کے سوا کوئی نہیں سمجھتا۔ اور فرمایا، اور ان لوگوں (کافروں) نے کہا اگر ہم سنتے یا عقل رکھتے تو جہنمی نہ ہوتے۔ اور فرمایا، کیا علم والے اور جاہل برابر ہیں؟ اور رسول اللہ نے فرمایا، جس شخص کے ساتھ اللہ بھلائی کرنا چاہتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عنایت فرما دیتا ہے۔ اور علم تو سیکھنے ہی سے آتا ہے۔ اور ابوذر ؓ کا ارشاد ہے کہ اگر تم اس پر تلوار رکھ دو، اور اپنی گردن کی طرف اشارہ کیا، اور مجھے گمان ہو کہ میں نے نبی کریم سے جو ایک کلمہ سنا ہے، گردن کٹنے سے پہلے بیان کرسکوں گا تو یقیناً میں اسے بیان کر ہی دوں گا اور نبی کریم کا فرمان ہے کہ حاضر کو چاہیے کہ (میری بات) غائب کو پہنچا دے اور ابن عباس ؓ نے کہا ہے کہ آیت کونوا ربانيين‏ سے مراد حکماء، فقہاء، علماء ہیں۔ اور رباني اس شخص کو کہا جاتا ہے جو بڑے مسائل سے پہلے چھوٹے مسائل سمجھا کر لوگوں کی (علمی) تربیت کرے۔
Narrated `Abdur-Rahman bin Abi Bakra's father: Once the Prophet was riding his camel and a man was holding its rein. The Prophet asked, What is the day today? We kept quiet, thinking that he might give that day another name. He said, Isn't it the day of Nahr (slaughtering of the animals of sacrifice) We replied, Yes. He further asked, Which month is this? We again kept quiet, thinking that he might give it another name. Then he said, Isn't it the month of Dhul-Hijja? We replied, Yes. He said, Verily! Your blood, property and honor are sacred to one another (i.e. Muslims) like the sanctity of this day of yours, in this month of yours and in this city of yours. It is incumbent upon those who are present to inform those who are absent because those who are absent might comprehend (what I have said) better than the present audience.
Top