صحيح البخاری - ذبیحوں اور شکار کا بیان - حدیث نمبر 5494
حدیث نمبر: 5494
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ جَابِرًا، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ بَعَثَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ مِائَةِ رَاكِبٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمِيرُنَا أَبُو عُبَيْدَةَ نَرْصُدُ عِيرًا لِقُرَيْشٍ فَأَصَابَنَا جُوعٌ شَدِيدٌ حَتَّى أَكَلْنَا الْخَبَطَ، ‏‏‏‏‏‏فَسُمِّيَ جَيْشَ الْخَبَطِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَلْقَى الْبَحْرُ حُوتًا، ‏‏‏‏‏‏يُقَالُ لَهُ:‏‏‏‏ الْعَنْبَرُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَكَلْنَا نِصْفَ شَهْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَادَّهَنَّا بِوَدَكِهِ حَتَّى صَلَحَتْ أَجْسَامُنَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَخَذَ أَبُو عُبَيْدَةَ ضِلَعًا مِنْ أَضْلَاعِهِ فَنَصَبَهُ فَمَرَّ الرَّاكِبُ تَحْتَهُ وَكَانَ فِينَا رَجُلٌ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا اشْتَدَّ الْجُوعُ نَحَرَ ثَلَاثَ جَزَائِرَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ ثَلَاثَ جَزَائِرَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ نَهَاهُ أَبُو عُبَيْدَةَ.
اللہ تعالیٰ کا قول کہ دریا کا شکار تمہارے لئے حلال ہے اور حضرت عمر نے فرمایا کہ صید سے مراد وہ ہے جو جال سے شکار کیا جائے اور طعام سے مراد وہ ہے جس کو دریا پھینک دے، حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا کہ طافی (دریا میں خود مر کر تیرنے والا) حلال ہے، اور ابن عباس نے فرمایا کہ طعام سے مراد دریا میں مرا ہوا جانور ہے مگر وہ جو تجھے مکروہ معلوم ہو اور جریث کو یہودی نہیں کھاتے، لیکن ہم کھاتے ہیں، آپ ﷺ کے صحابی شریح نے فرمایا کہ دریا کی تمام چیزیں مذبوح کے حکم میں ہیں، عطاء نے کہا کہ پرندے (جو پانی پر اترتے ہیں) کا ذبح کرنا میں مناسب سمجھتا ہوں اور ابن جریج نے کہا کہ میں نے عطاء سے نہروں اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر جو پانی جمع ہوگیا، اسے کے شکار کے متعلق پوچھا کہ کیا یہ بھی دریائی شکار کے حکم میں ہے، انہوں نے کہا ہاں ! پھر یہ آیت تلاوت کی ھذا عذب فرات سائغ شرابہ وھذا ملح اجاج ومن کل تائکلون لحما طریا، اور حسن ؓ دریائی کتوں کی کھال سے بنی ہوئی زین پر سوار ہوتے تھے اور شعبی نے کہا کہ اگر میرے گھر کے لوگ مینڈک کھاتے تو میں ان کو کھلا دیتا ، اور حسن بصری نے کچھوے میں کچھ حرج نہیں سمجھا اور ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ دریا کا شکار کھاؤ، اگرچہ اس کو یہودی، نصری یا مجوسی نے شکار کیا ہو، ابوالدرداء نے مری کے متعلق فرمایا کہ دھوپ اور مچھلیوں نے شراب کو ذبح کردیا (حلال کردیا ہے)
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، ان سے عمرو بن دینار نے، انہوں نے جابر ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم نے تین سو سوار روانہ کئے۔ ہمارے امیر ابوعبیدہ ؓ تھے۔ ہمیں قریش کے تجارتی قافلہ کی نقل و حرکت پر نظر رکھنی تھی پھر (کھانا ختم ہوجانے کی وجہ سے) ہم سخت بھوک اور فاقہ کی حالت میں تھے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ ہم سلم کے پتے (خبط) کھا کر وقت گزارتے تھے۔ اسی لیے اس مہم کا نام جیش الخبط پڑگیا اور سمندر نے ایک مچھلی باہر ڈال دی۔ جس کا نام عنبر تھا۔ ہم نے اسے آدھے مہینہ تک کھایا اور اس کی چربی تیل کے طور پر اپنے جسم پر ملی جس سے ہمارے جسم تندرست ہوگئے۔ بیان کیا کہ پھر ابو عبیداللہ ؓ نے اس کی ایک پسلی کی ہڈی لے کر کھڑی کی تو ایک سوار اس کے نیچے سے گزر گیا۔ ہمارے ساتھ ایک صاحب (قیس بن سعد بن عبادہ ؓ) تھے جب ہم بہت زیادہ بھوکے ہوئے تو انہوں نے یکے بعد دیگر تین اونٹ ذبح کردیئے۔ بعد میں ابوعبیدہ ؓ نے انہیں اس سے منع کردیا۔
Narrated Jabir (RA) : The Prophet ﷺ sent us as an army unit of three hundred warriors under the command of Abu Ubaida to ambush a caravan of the Quraish. But we were struck with such severe hunger that we ate the Khabt (desert bushes), so our army was called the Army of the Khabt. Then the sea threw a huge fish called Al-Anbar and we ate of it for half a month and rubbed our bodies with its fat till our bodies became healthy. Then Abu Ubaida took one of its ribs and fixed it over the ground and a rider passed underneath it. There was a man amongst us who slaughtered three camels when hunger became severe, and he slaughtered three more, but after that Abu Ubaida forbade him to do so.
Top