مسند امام احمد - حضرت اسماء بنت یزید کی حدیثیں - حدیث نمبر 1079
حدیث نمبر: 4581
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو عُمَرَ حَفْصُ بْنُ مَيْسَرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏هَلْ نَرَى رَبَّنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ؟ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏هَلْ تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ الشَّمْسِ بِالظَّهِيرَةِ، ‏‏‏‏‏‏ضَوْءٌ لَيْسَ فِيهَا سَحَابٌ ؟قَالُوا:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَهَلْ تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ، ‏‏‏‏‏‏ضَوْءٌ لَيْسَ فِيهَا سَحَابٌ ؟قَالُوا:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَا تُضَارُونَ فِي رُؤْيَةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا كَمَا تُضَارُونَ فِي رُؤْيَةِ أَحَدِهِمَا، ‏‏‏‏‏‏إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ، ‏‏‏‏‏‏تَتْبَعُ كُلُّ أُمَّةٍ مَا كَانَتْ تَعْبُدُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا يَبْقَى مَنْ كَانَ يَعْبُدُ غَيْرَ اللَّهِ مِنَ الْأَصْنَامِ وَالْأَنْصَابِ إِلَّا يَتَسَاقَطُونَ فِي النَّارِ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى إِذَا لَمْ يَبْقَ إِلَّا مَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ بَرٌّ أَوْ فَاجِرٌ، ‏‏‏‏‏‏وَغُبَّرَاتُ أَهْلِ الْكِتَابِ، ‏‏‏‏‏‏فَيُدْعَى الْيَهُودُ، ‏‏‏‏‏‏فَيُقَالُ لَهُمْ:‏‏‏‏ مَنْ كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ ؟ قَالُوا:‏‏‏‏ كُنَّا نَعْبُدُ عُزَيْرَ ابْنَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَيُقَالُ لَهُمْ:‏‏‏‏ كَذَبْتُمْ، ‏‏‏‏‏‏مَا اتَّخَذَ اللَّهُ مِنْ صَاحِبَةٍ وَلَا وَلَدٍ، ‏‏‏‏‏‏فَمَاذَا تَبْغُونَ ؟ فَقَالُوا:‏‏‏‏ عَطِشْنَا رَبَّنَا فَاسْقِنَا، ‏‏‏‏‏‏فَيُشَارُ أَلَا تَرِدُونَ فَيُحْشَرُونَ إِلَى النَّارِ كَأَنَّهَا سَرَابٌ يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا فَيَتَسَاقَطُونَ فِي النَّارِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يُدْعَى النَّصَارَى، ‏‏‏‏‏‏فَيُقَالُ لَهُمْ:‏‏‏‏ مَنْ كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ ؟ قَالُوا:‏‏‏‏ كُنَّا نَعْبُدُ الْمَسِيحَ ابْنَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَيُقَالُ لَهُمْ:‏‏‏‏ كَذَبْتُمْ، ‏‏‏‏‏‏مَا اتَّخَذَ اللَّهُ مِنْ صَاحِبَةٍ وَلَا وَلَدٍ، ‏‏‏‏‏‏فَيُقَالُ لَهُمْ:‏‏‏‏ مَاذَا تَبْغُونَ ؟ فَكَذَلِكَ مِثْلَ الْأَوَّلِ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى إِذَا لَمْ يَبْقَ إِلَّا مَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ مِنْ بَرٍّ أَوْ فَاجِرٍ، ‏‏‏‏‏‏أَتَاهُمْ رَبُّ الْعَالَمِينَ فِي أَدْنَى صُورَةٍ مِنَ الَّتِي رَأَوْهُ فِيهَا، ‏‏‏‏‏‏فَيُقَالُ:‏‏‏‏ مَاذَا تَنْتَظِرُونَ ؟ تَتْبَعُ كُلُّ أُمَّةٍ مَا كَانَتْ تَعْبُدُ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ فَارَقْنَا النَّاسَ فِي الدُّنْيَا عَلَى أَفْقَرِ مَا كُنَّا إِلَيْهِمْ وَلَمْ نُصَاحِبْهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَنَحْنُ نَنْتَظِرُ رَبَّنَا الَّذِي كُنَّا نَعْبُدُ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ أَنَا رَبُّكُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُونَ:‏‏‏‏ لَا نُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا.
باب: آیت کی تفسیر ”بیشک اللہ ایک ذرہ برابر بھی کسی پر ظلم نہیں کرے گا، «مثقال ذرة» سے ذرہ برابر مراد ہے۔
مجھ سے محمد بن عبدالعزیز نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعمر حفص بن میسرہ نے بیان کیا، ان سے زید بن اسلم نے، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابو سعید خدری ؓ نے بیان کیا کہ کچھ صحابہ ؓ نے رسول اللہ کے زمانہ میں آپ سے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا قیامت کے دن ہم اپنے رب کو دیکھ سکیں گے؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں، کیا سورج کو دوپہر کے وقت دیکھنے میں تمہیں کوئی دشواری ہوتی ہے، جبکہ اس پر بادل بھی نہ ہو؟ صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ نہیں۔ پھر آپ نے فرمایا اور کیا چودھویں رات کے چاند کو دیکھنے میں تمہیں کچھ دشواری پیش آتی ہے، جبکہ اس پر بادل نہ ہو؟ صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ نہیں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ بس اسی طرح تم بلا کسی دقت اور رکاوٹ کے اللہ تعالیٰ کو دیکھو گے۔ قیامت کے دن ایک منادی ندا کرے گا کہ ہر امت اپنے جھوٹے معبودوں کے ساتھ حاضر ہوجائے۔ اس وقت اللہ کے سوا جتنے بھی بتوں اور پتھروں کی پوجا ہوتی تھی، سب کو جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ پھر جب وہی لوگ باقی رہ جائیں گے جو صرف اللہ کی پوجا کیا کرتے تھے، خواہ نیک ہوں یا گنہگار اور اہل کتاب کے کچھ لوگ، تو پہلے یہود کو بلایا جائے گا اور پوچھا جائے گا کہ تم (اللہ کے سوا) کس کی پوجا کرتے تھے؟ وہ عرض کریں گے کہ عزیر ابن اللہ کی، اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا لیکن تم جھوٹے تھے، اللہ نے نہ کسی کو اپنی بیوی بنایا اور نہ بیٹا، اب تم کیا چاہتے ہو؟ وہ کہیں گے، ہمارے رب! ہم پیاسے ہیں، ہمیں پانی پلا دے۔ انہیں اشارہ کیا جائے گا کہ کیا ادھر نہیں چلتے۔ چناچہ سب کو جہنم کی طرف لے جایا جائے گا۔ وہاں چمکتی ریت پانی کی طرح نظر آئے گی، بعض بعض کے ٹکڑے کئے دے رہی ہوگی۔ پھر سب کو آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ پھر نصاریٰ کو بلایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا کہ تم کس کی عبادت کیا کرتے تھے؟ وہ کہیں گے کہ ہم مسیح ابن اللہ کی عبادت کرتے تھے۔ ان سے بھی کہا جائے گا کہ تم جھوٹے تھے۔ اللہ نے کسی کو بیوی اور بیٹا نہیں بنایا، پھر ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا چاہتے ہو؟ اور ان کے ساتھ یہودیوں کی طرح برتاؤ کیا جائے گا۔ یہاں تک کہ جب ان لوگوں کے سوا اور کوئی باقی نہ رہے گا جو صرف اللہ کی عبادت کرتے تھے، خواہ وہ نیک ہوں یا گنہگار، تو ان کے پاس ان کا رب ایک صورت میں جلوہ گر ہوگا، جو پہلی صورت سے جس کو وہ دیکھ چکے ہوں گے، ملتی جلتی ہوگی (یہ وہ صورت نہ ہوگی) اب ان سے کہا جائے گا۔ اب تمہیں کس کا انتظار ہے؟ ہر امت اپنے معبودوں کو ساتھ لے کر جا چکی، وہ جواب دیں گے کہ ہم دنیا میں جب لوگوں سے (جنہوں نے کفر کیا تھا) جدا ہوئے تو ہم ان میں سب سے زیادہ محتاج تھے، پھر بھی ہم نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور اب ہمیں اپنے سچے رب کا انتظار ہے جس کی ہم دنیا میں عبادت کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تمہارا رب میں ہی ہوں۔ اس پر تمام مسلمان بول اٹھیں گے کہ ہم اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے، دو یا تین مرتبہ یوں کہیں گے ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنے والے نہیں ہیں۔
Top