صحيح البخاری - جہاد اور سیرت رسول اللہ ﷺ - حدیث نمبر 3159
حدیث نمبر: 3159
حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ يَعْقُوبَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الثَّقَفِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيُّ وَزِيَادُ بْنُ جُبَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جُبَيْرِ بْنِ حَيَّةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ بَعَثَ عُمَرُ النَّاسَ فِي أَفْنَاءِ الْأَمْصَارِ يُقَاتِلُونَ الْمُشْرِكِينَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَسْلَمَ الْهُرْمُزَانُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي مُسْتَشِيرُكَ فِي مَغَازِيَّ هَذِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ مَثَلُهَا وَمَثَلُ مَنْ فِيهَا مِنَ النَّاسِ مِنْ عَدُوِّ الْمُسْلِمِينَ مَثَلُ طَائِرٍ لَهُ رَأْسٌ وَلَهُ جَنَاحَانِ وَلَهُ رِجْلَانِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ كُسِرَ أَحَدُ الْجَنَاحَيْنِ نَهَضَتِ الرِّجْلَانِ بِجَنَاحٍ وَالرَّأْسُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ كُسِرَ الْجَنَاحُ الْآخَرُ نَهَضَتِ الرِّجْلَانِ وَالرَّأْسُ وَإِنْ شُدِخَ الرَّأْسُ ذَهَبَتِ الرِّجْلَانِ وَالْجَنَاحَانِ وَالرَّأْسُ، ‏‏‏‏‏‏فَالرَّأْسُ كِسْرَى وَالْجَنَاحُ قَيْصَرُ وَالْجَنَاحُ الْآخَرُ فَارِسُ فَمُرِ الْمُسْلِمِينَ فَلْيَنْفِرُوا إِلَى كِسْرَى، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ بَكْرٌ وَزِيَادٌ جميعا، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جُبَيْرِ بْنِ حَيَّةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَنَدَبَنَا عُمَرُ وَاسْتَعْمَلَ عَلَيْنَا النُّعْمَانَ بْنَ مُقَرِّنٍ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِأَرْضِ الْعَدُوِّ وَخَرَجَ عَلَيْنَا عَامِلُ كِسْرَى فِي أَرْبَعِينَ أَلْفًا فَقَامَ تَرْجُمَانٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لِيُكَلِّمْنِي رَجُلٌ مِنْكُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَالْمُغِيرَةُ :‏‏‏‏ سَلْ عَمَّا شئِتَ قَالَ:‏‏‏‏ مَا أَنْتُمْ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَحْنُ أُنَاسٌ مِنَ الْعَرَبِ كُنَّا فِي شَقَاءٍ شَدِيدٍ وَبَلَاءٍ شَدِيدٍ نَمَصُّ الْجِلْدَ وَالنَّوَى مِنَ الْجُوعِ، ‏‏‏‏‏‏وَنَلْبَسُ الْوَبَرَ وَالشَّعَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَنَعْبُدُ الشَّجَرَ وَالْحَجَرَ، ‏‏‏‏‏‏فَبَيْنَا نَحْنُ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَرَبُّ الْأَرَضِينَ تَعَالَى ذِكْرُهُ وَجَلَّتْ عَظَمَتُهُ إِلَيْنَا نَبِيًّا مِنْ أَنْفُسِنَا نَعْرِفُ أَبَاهُ وَأُمَّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَنَا نَبِيُّنَا رَسُولُ رَبِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ:‏‏‏‏ نُقَاتِلَكُمْ حَتَّى تَعْبُدُوا اللَّهَ وَحْدَهُ أَوْ تُؤَدُّوا الْجِزْيَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَخْبَرَنَا نَبِيُّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رِسَالَةِ رَبِّنَا أَنَّهُ مَنْ قُتِلَ مِنَّا صَارَ إِلَى الْجَنَّةِ فِي نَعِيمٍ لَمْ يَرَ مِثْلَهَا قَطُّ وَمَنْ بَقِيَ مِنَّا مَلَكَ رِقَابَكُمْ.
حدیث نمبر: 3160
فَقَالَ النُّعْمَانُ :‏‏‏‏ رُبَّمَا أَشْهَدَكَ اللَّهُ مِثْلَهَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُنَدِّمْكَ وَلَمْ يُخْزِكَ وَلَكِنِّي شَهِدْتُ الْقِتَالَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا لَمْ يُقَاتِلْ فِي أَوَّلِ النَّهَارِ انْتَظَرَ حَتَّى تَهُبَّ الْأَرْوَاحُ وَتَحْضُرَ الصَّلَوَاتُ.
باب: جزیہ کا اور کافروں سے ایک مدت تک لڑائی نہ کرنے کا بیان۔
ہم سے فضل بن یعقوب نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن جعفر الرقی نے، کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے، کہا ہم سے سعید بن عبیداللہ ثقفی نے بیان کیا، ان سے بکر بن عبداللہ مزنی اور زیاد بن جبیر ہر دو نے بیان کیا اور ان سے جبیر بن حیہ نے بیان کیا کہ کفار سے جنگ کے لیے عمر ؓ نے فوجوں کو (فارس کے) بڑے بڑے شہروں کی طرف بھیجا تھا۔ (جب لشکر قادسیہ پہنچا اور لڑائی کا نتیجہ مسلمانوں کے حق میں نکلا ) تو ہرمزان (شوستر کا حاکم) اسلام لے آیا۔ عمر ؓ نے اس سے فرمایا کہ میں تم سے ان (ممالک فارس وغیرہ) پر فوج بھیجنے کے سلسلے میں مشورہ چاہتا ہوں (کہ پہلے ان تین مقاموں فارس، اصفہان اور آذربائیجان میں کہاں سے لڑائی شروع کی جائے) اس نے کہا جی ہاں! اس ملک کی مثال اور اس میں رہنے والے اسلام دشمن باشندوں کی مثال ایک پرندے جیسی ہے جس کا سر ہے، دو بازو ہیں۔ اگر اس کا ایک بازو توڑ دیا جائے تو وہ اپنے دونوں پاؤں پر ایک بازو اور ایک سر کے ساتھ کھڑا رہ سکتا ہے۔ اگر دوسرا بازو بھی توڑ دیا جائے تو دونوں پاؤں اور سر کے ساتھ کھڑا رہ سکتا ہے۔ لیکن اگر سر توڑ دیا جائے تو دونوں پاؤں دونوں بازو اور سر سب بےکار رہ جاتا ہے۔ پس سر تو کسریٰ ہے، ایک بازو قیصر ہے اور دوسرا فارس! اس لیے آپ مسلمانوں کو حکم دے دیں کہ پہلے وہ کسریٰ پر حملہ کریں۔ اور بکر بن عبداللہ اور زیاد بن جبیر دونوں نے بیان کیا کہ ان سے جبیر بن حیہ نے بیان کیا کہ ہمیں عمر ؓ نے (جہاد کے لیے) بلایا اور نعمان بن مقرن ؓ کو ہمارا امیر مقرر کیا۔ جب ہم دشمن کی سر زمین (نہاوند) کے قریب پہنچے تو کسریٰ کا ایک افسر چالیس ہزار کا لشکر ساتھ لیے ہوئے ہمارے مقابلہ کے لیے بڑھا۔ پھر ایک ترجمان نے آ کر کہا کہ تم میں سے کوئی ایک شخص (معاملات پر) گفتگو کرے۔ مغیرہ بن شعبہ ؓ نے (مسلمانوں کی نمائندگی کی اور) فرمایا کہ جو تمہارے مطالبات ہوں، انہیں بیان کرو۔ اس نے پوچھا آخر تم لوگ ہو کون؟ مغیرہ ؓ نے کہا کہ ہم عرب کے رہنے والے ہیں، ہم انتہائی بدبختیوں اور مصیبتوں میں مبتلا تھے۔ بھوک کی شدت میں ہم چمڑے، اور گٹھلیاں چوسا کرتے تھے۔ اون اور بال ہماری پوشاک تھی۔ اور پتھروں اور درختوں کی ہم عبادت کیا کرتے تھے۔ ہماری مصیبتیں اسی طرح قائم تھیں کہ آسمان اور زمین کے رب نے، جس کا ذکر اپنی تمام عظمت و جلال کے ساتھ بلند ہے۔ ہماری طرف ہماری ہی طرح (کے انسانی عادات و خصائص رکھنے والا) ایک نبی بھیجا۔ ہم اس کے باپ اور ماں کو جانتے ہیں۔ اللہ کے رسول نے ہمیں حکم دیا کہ ہم تم سے اس وقت تک جنگ کرتے رہیں۔ جب تک تم صرف اللہ اکیلے کی عبادت نہ کرنے لگو۔ یا پھر اسلام نہ قبول کرنے کی صورت میں جزیہ دینا قبول کرلو اور ہمارے نبی نے ہمیں اپنے رب کا یہ پیغام بھی پہنچایا ہے کہ (اسلام کے لیے لڑتے ہوئے) جہاد میں ہمارا جو آدمی بھی قتل کیا جائے گا وہ ایسی جنت میں جائے گا، جو اس نے کبھی نہیں دیکھی اور جو لوگ ہم میں سے زندہ باقی رہ جائیں گے وہ (فتح حاصل کر کے) تم پر حاکم بن سکیں گے (مغیرہ ؓ نے یہ گفتگو تمام کر کے نعمان ؓ سے کہا لڑائی شروع کرو) ۔
نعمان ؓ نے کہا تم کو تو اللہ پاک ایسی کئی لڑائیوں میں نبی کریم کے ساتھ شریک رکھ چکا ہے۔ اور اس نے (لڑائی میں دیر کرنے پر) تم کو نہ شرمندہ کیا نہ ذلیل کیا اور میں تو رسول اللہ کے ساتھ لڑائی میں موجود تھا۔ آپ کا قاعدہ تھا اگر صبح سویرے لڑائی شروع نہ کرتے اور دن چڑھ جاتا تو اس وقت تک ٹھہرے رہتے کہ سورج ڈھل جائے، ہوائیں چلنے لگیں، نمازوں کا وقت آن پہنچے۔
Narrated Jubair bin Haiya (RA): Umar sent the Muslims to the great countries to fight the pagans. When Al-Hurmuzan embraced Islam, Umar said to him. "I would like to consult you regarding these countries which I intend to invade." Al-Hurmuzan said, "Yes, the example of these countries and their inhabitants who are the enemies. of the Muslims, is like a bird with a head, two wings and two legs; If one of its wings got broken, it would get up over its two legs, with one wing and the head; and if the other wing got broken, it would get up with two legs and a head, but if its head got destroyed, then the two legs, two wings and the head would become useless. The head stands for Khosrau, and one wing stands for Caesar and the other wing stands for Faris. So, order the Muslims to go towards Khosrau." So, Umar sent us (to Khosrau) appointing An-Numan bin Muqrin as our commander. When we reached the land of the enemy, the representative of Khosrau came out with forty-thousand warriors, and an interpreter got up saying, "Let one of you talk to me!" Al-Mughira replied, "Ask whatever you wish." The other asked, "Who are you?" Al-Mughira replied, "We are some people from the Arabs; we led a hard, miserable, disastrous life: we used to suck the hides and the date stones from hunger; we used to wear clothes made up of fur of camels and hair of goats, and to worship trees and stones. While we were in this state, the Lord of the Heavens and the Earths, Elevated is His Remembrance and Majestic is His Highness, sent to us from among ourselves a Prophet ﷺ whose father and mother are known to us. Our Prophet, the Messenger of our Lord, has ordered us to fight you till you worship Allah Alone or give Jizya (i.e. tribute); and our Prophet ﷺ has informed us that our Lord says:-- "Whoever amongst us is killed (i.e. martyred), shall go to Paradise to lead such a luxurious life as he has never seen, and whoever amongst us remain alive, shall become your master." (Al-Mughira, then blamed An-Numan for delaying the attack and) An-Nu man said to Al-Mughira, "If you had participated in a similar battle, in the company of Allahs Apostle ﷺ he would not have blamed you for waiting, nor would he have disgraced you. But I accompanied Allahs Apostle ﷺ in many battles and it was his custom that if he did not fight early by daytime, he would wait till the wind had started blowing and the time for the prayer was due (i.e. after midday)."
Top