صحيح البخاری - توحید کا بیان - حدیث نمبر 7555
حدیث نمبر: 7555
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، ‏‏‏‏‏‏ وَالْقَاسِمِ التَّمِيمِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْزَهْدَمٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ بَيْنَ هَذَا الْحَيِّ مِنْ جُرْمٍ وَبَيْنَ الْأَشْعَرِيِّينَ وُدٌّ وَإِخَاءٌ، ‏‏‏‏‏‏فَكُنَّا عِنْدَ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏فَقُرِّبَ إِلَيْهِ الطَّعَامُ فِيهِ لَحْمُ دَجَاجٍ وَعِنْدَهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَيْمِ اللَّهِ كَأَنَّهُ مِنَ الْمَوَالِي، ‏‏‏‏‏‏فَدَعَاهُ إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي رَأَيْتُهُ يَأْكُلُ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَذِرْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَحَلَفْتُ لَا آكُلُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ هَلُمَّ، ‏‏‏‏‏‏فَلْأُحَدِّثْكَ عَنْ ذَاكَ إِنِّي أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَفَرٍ مِنْ الْأَشْعَرِيِّينَ نَسْتَحْمِلُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ لَا أَحْمِلُكُمْ وَمَا عِنْدِي مَا أَحْمِلُكُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَهْبِ إِبِلٍ، ‏‏‏‏‏‏فَسَأَلَ عَنَّا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَيْنَ النَّفَرُ الْأَشْعَرِيُّونَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَ لَنَا بِخَمْسِ ذَوْدٍ غُرِّ الذُّرَى، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ انْطَلَقْنَا، ‏‏‏‏‏‏قُلْنَا:‏‏‏‏ مَا صَنَعْنَا حَلَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا يَحْمِلَنَا وَمَا عِنْدَهُ مَا يَحْمِلُنَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ حَمَلَنَا تَغَفَّلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمِينَهُ وَاللَّهِ لَا نُفْلِحُ أَبَدًا، ‏‏‏‏‏‏فَرَجَعْنَا إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْنَا لَهُ:‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ لَسْتُ أَنَا أَحْمِلُكُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ حَمَلَكُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا أَحْلِفُ عَلَى يَمِينٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَرَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا إِلَّا أَتَيْتُ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ مِنْهُ وَتَحَلَّلْتُهَا.
اللہ کا قول کہ اللہ نے تم کو اور جو تم کرتے ہوپیدا کیا ہم نے ہر چیز کو اندازے سے پیدا کیا اور تصویر بنانے والوں سے کہا جائے گا کہ جو تم نے پیدا کیا ہے اس میں جان ڈالو، بیشک تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر عرش پر چڑھا رات کو دن سے ڈھانپتا ہے، دونوں ایک دوسرے کے پیچھے دوڑ کر آتے ہیں اور آفتاب و ماہتاب اور ستارے پیدا کئے جو اس کے حکم کے تابع ہیں، سن لو کہ خلق و امر اسی کے لئے ہے، اللہ رکت ہے جو سارے جہاں کا رب ہے، اور ابن عیینہ نے کہا کہ اللہ نے خلق اور امر کو جدا کر کے بیان کیا اور الا لہ الخلق والامر فرمایا اور نبی ﷺ نے ایمان کا نام عمل عکھا۔ ابو ذر اور ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ نبی ﷺ سے کسی نے سوال کیا کہ کون سا عمل سب سے اچھا ہے، آپ نے فرمایا کہ اللہ پر ایمان لانا اور اس کے راستہ میں جہاد کرنا اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا جزاء بما کانوا یعملون۔ (یہ ان کے اعمال کا بدلہ ہے) اور وفد عبدالقیس نے نبی ﷺ سے عرض کیا کہ ہم کو چند جامع احکام بتلائیے کہ اگر ہم اس پر عمل کریں تو جنت میں داخل ہوں، تو آپ نے ان کو ایمان اور شہادۃ اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کا حکم دیا اور ان ساری باتوں کو عمل قرار دیا۔
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، ان سے عبدالوہاب نے، کہا ہم سے ایوب سختیانی نے، ان سے ابوقلابہ اور قاسم تمیمی نے، ان سے زہدم نے بیان کیا کہ اس قبیلہ جرم اور اشعریوں میں محبت اور بھائی چارہ کا معاملہ تھا۔ ایک مرتبہ ہم ابوموسیٰ اشعری ؓ کے پاس تھے کہ ان کے پاس کھانا لایا گیا جس میں مرغی کا گوشت بھی تھا۔ ان کے ہاں ایک بنی تیم اللہ کا بھی شخص تھا۔ غالباً وہ عرب کے غلام لوگوں میں سے تھا۔ ابوموسیٰ ؓ نے اسے اپنے پاس بلایا تو اس نے کہا کہ میں نے مرغی کو گندگی کھاتے دیکھا ہے اور اسی وقت سے قسم کھالی کہ اس کا گوشت نہیں کھاؤں گا۔ ابوموسیٰ ؓ نے کہا، سنو! میں تم سے اس کے متعلق ایک حدیث رسول اللہ کی بیان کرتا ہوں۔ میں نبی کریم کے پاس اشعریوں کے کچھ افراد کو لے کر حاضر ہوا اور ہم نے آپ سے سواری مانگی۔ نبی کریم نے فرمایا کہ واللہ! میں تمہارے لیے سواری کا انتظام نہیں کرسکتا، نہ میرے پاس کوئی ایسی چیز ہے جسے میں تمہیں سواری کے لیے دوں۔ پھر نبی کریم کے پاس مال غنیمت میں سے کچھ اونٹ آئے تو نبی کریم نے ہمارے متعلق پوچھا کہ اشعری لوگ کہاں ہیں؟ چناچہ آپ نے ہمیں پانچ عمدہ اونٹ دینے کا حکم دیا۔ ہم انہیں لے کر چلے تو ہم نے اپنے عمل کے متعلق سوچا کہ نبی کریم نے قسم کھائی تھی کہ ہمیں سواری کے لیے کوئی جانور نہیں دیں گے اور نہ آپ کے پاس کوئی ایسا جانور ہے جو ہمیں سواری کے لیے دیں۔ ہم نے سوچا کہ نبی کریم اپنی قسم بھول گئے ہیں، واللہ! ہم کبھی فلاح نہیں پاسکتے۔ ہم واپس نبی کریم کے پاس پہنچے اور آپ سے صورت حال کے متعلق پوچھا۔ آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں یہ سواری نہیں دے رہا ہوں بلکہ اللہ دے رہا ہے۔ واللہ! میں اگر کوئی قسم کھا لیتا ہوں اور پھر اس کے خلاف میں دیکھتا ہوں تو میں وہی کرتا ہوں جس میں بھلائی ہوتی ہے اور قسم کا کفارہ دے دیتا ہوں۔
Narrated Zahdam: There were good relations and brotherhood between this tribe of Jurm and the Ashariyyin. Once, while we were sitting with Abu Musa Al-Ashari (RA), there was brought to him a meal which contained chicken meat, and there was sitting beside him, a man from the tribe of Bani Taimul-lah who looked like one of the Mawali. Abu Musa invited the man to eat but the man said, "I have seen chicken eating some dirty things, and I have taken an oath not to eat chicken." Abu Musa (RA) said to him, "Come along, let me tell you something in this regard. Once I went to the Prophet ﷺ with a few men from Ashariyyin and we asked him for mounts. The Prophet ﷺ said, By Allah, I will not mount you on anything; besides I do not have anything to mount you on. Then a few camels from the war booty were brought to the Prophet, and he asked about us, saying, Where are the group of Ashariyyin? So he ordered for five fat camels to be given to us and then we set out. We said, What have we done? Allahs Apostle ﷺ took an oath that he would not give us anything to ride and that he had nothing for us to ride, yet he provided us with mounts. We made Allahs Apostle ﷺ forget his oath! By Allah, we will never be successful. So we returned to him and reminded him of his oath. He said, I have not provided you with the mount, but Allah has done so. By Allah, I may take an oath to do something, but on finding something else which is better, I do that which is better and make the expiation for my oath. "
Top