صحیح مسلم - سلام کرنے کا بیان - حدیث نمبر 5730
حدیث نمبر: 4970
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بِشْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ عُمَرُ يُدْخِلُنِي مَعَ أَشْيَاخِ بَدْرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَكَأَنَّ بَعْضَهُمْ وَجَدَ فِي نَفْسِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لِمَ تُدْخِلُ هَذَا مَعَنَا وَلَنَا أَبْنَاءٌ مِثْلُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ إِنَّهُ مَنْ قَدْ عَلِمْتُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَدَعَاهُ ذَاتَ يَوْمٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَدْخَلَهُ مَعَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَمَا رُئِيتُ أَنَّهُ دَعَانِي يَوْمَئِذٍ إِلَّا لِيُرِيَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا تَقُولُونَ فِي قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ سورة النصر آية 1 ؟ فَقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ أُمِرْنَا أَنْ نَحْمَدَ اللَّهَ وَنَسْتَغْفِرَهُ إِذَا نُصِرْنَا وَفُتِحَ عَلَيْنَا، ‏‏‏‏‏‏وَسَكَتَ بَعْضُهُمْ فَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لِي:‏‏‏‏ أَكَذَاكَ تَقُولُ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ ؟ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَمَا تَقُولُ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ هُوَ أَجَلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْلَمَهُ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَذَلِكَ عَلَامَةُ أَجَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ مَا أَعْلَمُ مِنْهَا إِلَّا مَا تَقُولُ.
باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی! اب تم اپنے رب کی حمد و ثنا بیان کیا کرو اور اس سے بخشش چاہو بیشک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے“۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ عمر بن خطاب ؓ مجھے بوڑھے بدری صحابہ کے ساتھ مجلس میں بٹھاتے تھے۔ بعض (عبدالرحمٰن بن عوف) کو اس پر اعتراض ہوا، انہوں نے عمر ؓ سے کہا کہ اسے آپ مجلس میں ہمارے ساتھ بٹھاتے ہیں، اس کے جیسے تو ہمارے بھی بچے ہیں؟ عمر ؓ نے کہا کہ اس کی وجہ تمہیں معلوم ہے۔ پھر انہوں نے ایک دن ابن عباس ؓ کو بلایا اور انہیں بوڑھے بدری صحابہ کے ساتھ بٹھایا (ابن عباس ؓ نے کہا کہ) میں سمجھ گیا کہ آپ نے مجھے انہیں دکھانے کے لیے بلایا ہے، پھر ان سے پوچھا اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے إذا جاء نصر الله والفتح‏ الخ یعنی جب اللہ کی مدد اور فتح آپہنچی بعض لوگوں نے کہا کہ جب ہمیں مدد اور فتح حاصل ہوئی تو اللہ کی حمد اور اس سے استغفار کا ہمیں آیت میں حکم دیا گیا ہے۔ کچھ لوگ خاموش رہے اور کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر آپ نے مجھ سے پوچھا: ابن عباس! کیا تمہارا بھی یہی خیال ہے؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں۔ پوچھا پھر تمہاری کیا رائے ہے؟ میں نے عرض کی کہ اس میں رسول اللہ کی وفات کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو یہی چیز بتائی ہے اور فرمایا إذا جاء نصر الله والفتح‏ کہ جب اللہ کی مدد اور فتح آپہنچی یعنی پھر یہ آپ کی وفات کی علامت ہے۔ اس لیے آپ اپنے پروردگار کی پاکی و تعریف بیان کیجئے اور اس سے بخشش مانگا کیجئے۔ بیشک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔ عمر ؓ نے اس پر کہا میں بھی وہی جانتا ہوں جو تم نے کہا۔
Top