صحيح البخاری - تفاسیر کا بیان - حدیث نمبر 4929
حدیث نمبر: 4929
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏فِي قَوْلِهِ:‏‏‏‏ لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ سورة القيامة آية 16، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا نَزَلَ جِبْرِيلُ بِالْوَحْيِ وَكَانَ مِمَّا يُحَرِّكُ بِهِ لِسَانَهُ وَشَفَتَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَيَشْتَدُّ عَلَيْهِ وَكَانَ يُعْرَفُ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْزَلَ اللَّهُ الْآيَةَ الَّتِي فِي لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ سورة القيامة آية 1 لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ سورة القيامة آية 16 إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْءَانَهُ سورة القيامة آية 17، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ عَلَيْنَا أَنْ نَجْمَعَهُ فِي صَدْرِكَ وَقُرْآنَهُ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْءَانَهُ سورة القيامة آية 18، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا أَنْزَلْنَاهُ فَاسْتَمِعْ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ سورة القيامة آية 19 عَلَيْنَا أَنْ نُبَيِّنَهُ بِلِسَانِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَكَانَ إِذَا أَتَاهُ جِبْرِيلُ أَطْرَقَ فَإِذَا ذَهَبَ قَرَأَهُ كَمَا وَعَدَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَوْلَى لَكَ فَأَوْلَى تَوَعُّدٌ.
باب: آیت «فإذا قرأناه فاتبع قرآنه» کی تفسیر۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن ابی عائشہ نے، ان سے سعید بن جبیر نے، ان سے ابن عباس ؓ نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد لا تحرک به لسانک لتعجل به‏ الایۃ یعنی آپ اس کو جلدی جلدی لینے کے لیے اس پر زبان نہ ہلایا کریں کے متعلق بتلایا کہ جب جبرائیل آپ پر وحی نازل کرتے تو رسول اللہ اپنی زبان اور ہونٹ ہلایا کرتے تھے اور آپ پر یہ بہت سخت گزرتا، یہ آپ کے چہرے سے بھی ظاہر ہوتا تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے وہ آیت نازل کی جو سورة لا أقسم بيوم القيامة‏ میں ہے یعنی لا تحرک به لسانک الایۃ یعنی آپ اس کو جلدی جلدی لینے کے لیے اس پر زبان نہ ہلایا کریں۔ یہ تو ہمارے ذمہ ہے اس کا جمع کردینا اور اس کا پڑھوانا، پھر جب ہم اسے پڑھنے لگیں تو آپ اس کے پیچھے یاد کرتے جایا کریں۔ یعنی جب ہم وحی نازل کریں تو آپ غور سے سنیں۔ پھر اس کا بیان کرا دینا بھی ہمارے ذمہ ہے۔ یعنی یہ بھی ہمارے ذمہ ہے کہ ہم اسے آپ کی زبانی لوگوں کے سامنے بیان کرا دیں۔ بیان کیا کہ چناچہ اس کے بعد جب جبرائیل (علیہ السلام) وحی لے کر آتے تو نبی کریم خاموش ہوجاتے اور جب چلے جاتے تو پڑھتے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ کیا تھا۔ آیت أولى لک فأولى‏ میں تهديد یعنی ڈرانا دھمکانا مراد ہے۔
Narrated Ibn Abbas (RA) : (as regards) Allahs Statement: "Move not your tongue concerning (the Quran) to make haste therewith." (75.16) When Gabriel (علیہ السلام) revealed the Divine Inspiration in Allahs Apostle ﷺ , he (Allahs Apostle) ﷺ moved his tongue and lips, and that state used to be very hard for him, and that movement indicated that revelation was taking place. So Allah revealed in Surat Al-Qiyama which begins: I do swear by the Day of Resurrection... (75) the Verses:-- Move not your tongue concerning (the Quran) to make haste therewith. It is for Us to collect it (Quran) in your mind, and give you the ability to recite it by heart. (75.16-17) Ibn Abbas (RA) added: It is for Us to collect it (Quran) (in your mind), and give you the ability to recite it by heart means, "When We reveal it, listen. Then it is for Us to explain it," means, It is for us to explain it through your tongue. So whenever Gabriel (علیہ السلام) came to Allahs Apostle ﷺ he would keep quiet (and listen), and when the Angel left, the Prophet ﷺ would recite that revelation as Allah promised him.
Top