صحيح البخاری - تفاسیر کا بیان - حدیث نمبر 4684
حدیث نمبر: 4684
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْرَجِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:‏‏‏‏ أَنْفِقْ، ‏‏‏‏‏‏أُنْفِقْ عَلَيْكَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ يَدُ اللَّهِ مَلْأَى لَا تَغِيضُهَا نَفَقَةٌ سَحَّاءُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ أَرَأَيْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُنْذُ خَلَقَ السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ لَمْ يَغِضْ مَا فِي يَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَبِيَدِهِ الْمِيزَانُ، ‏‏‏‏‏‏يَخْفِضُ، ‏‏‏‏‏‏وَيَرْفَعُ. ‏‏‏‏اعْتَرَاكَ‏‏‏‏ افْتَعَلْتَ مِنْ عَرَوْتُهُ أَيْ أَصَبْتُهُ، وَمِنْهُ يَعْرُوهُ وَاعْتَرَانِي ‏‏‏‏آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا‏‏‏‏ أَيْ فِي مِلْكِهِ وَسُلْطَانِهِ. عَنِيدٌ وَعَنُودٌ وَعَانِدٌ وَاحِدٌ، هُوَ تَأْكِيدُ التَّجَبُّرِ، ‏‏‏‏اسْتَعْمَرَكُمْ‏‏‏‏ جَعَلَكُمْ عُمَّارًا، أَعْمَرْتُهُ الدَّارَ فَهْيَ عُمْرَى جَعَلْتُهَا لَهُ. ‏‏‏‏نَكِرَهُمْ‏‏‏‏ وَأَنْكَرَهُمْ وَاسْتَنْكَرَهُمْ وَاحِدٌ ‏‏‏‏حَمِيدٌ مَجِيدٌ‏‏‏‏ كَأَنَّهُ فَعِيلٌ مِنْ مَاجِدٍ. مَحْمُودٌ مِنْ حَمِدَ. سِجِّيلٌ الشَّدِيدُ الْكَبِيرُ. سِجِّيلٌ وَسِجِّينٌ وَاللاَّمُ وَالنُّونُ أُخْتَانِ، وَقَالَ تَمِيمُ بْنُ مُقْبِلٍ: وَرَجْلَةٍ يَضْرِبُونَ الْبَيْضَ ضَاحِيَةً ** ضَرْبًا تَوَاصَى بِهِ الأَبْطَالُ سِجِّينَا.
{وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا}:
إِلَى أَهْلِ مَدْيَنَ لأَنَّ مَدْيَنَ بَلَدٌ، وَمِثْلُهُ: ‏‏‏‏وَاسْأَلِ الْقَرْيَةَ‏‏‏‏ وَاسْأَلِ ‏‏‏‏الْعِيرَ‏‏‏‏ يَعْنِي أَهْلَ الْقَرْيَةِ ‏‏‏‏وَأَصْحَابَ‏‏‏‏ الْعِيرِ ‏‏‏‏وَرَاءَكُمْ ظِهْرِيًّا‏‏‏‏ يَقُولُ لَمْ تَلْتَفِتُوا إِلَيْهِ، وَيُقَالُ إِذَا لَمْ يَقْضِ الرَّجُلُ حَاجَتَهُ ظَهَرْتَ بِحَاجَتِي وَجَعَلْتَنِي ظِهْرِيًّا، وَالظِّهْرِيُّ هَاهُنَا أَنْ تَأْخُذَ مَعَكَ دَابَّةً أَوْ وِعَاءً تَسْتَظْهِرُ بِهِ. ‏‏‏‏أَرَاذِلُنَا‏‏‏‏ سُقَاطُنَا. ‏‏‏‏إِجْرَامِي‏‏‏‏ هُوَ مَصْدَرٌ مِنْ أَجْرَمْتُ وَبَعْضُهُمْ يَقُولُ جَرَمْتُ. الْفُلْكُ وَالْفَلَكُ وَاحِدٌ وَهْيَ السَّفِينَةُ وَالسُّفُنُ. ‏‏‏‏مُجْرَاهَا‏‏‏‏ مَدْفَعُهَا وَهْوَ مَصْدَرُ أَجْرَيْتُ، وَأَرْسَيْتُ حَبَسْتُ وَيُقْرَأُ: ‏‏‏‏مَرْسَاهَا‏‏‏‏ مِنْ رَسَتْ هِيَ، وَ‏‏‏‏مَجْرَاهَا‏‏‏‏ مِنْ جَرَتْ هِيَ وَ‏‏‏‏مُجْرِيهَا وَمُرْسِيهَا‏‏‏‏ مِنْ فُعِلَ بِهَا، الرَّاسِيَاتُ ثَابِتَاتٌ.
باب: آیت کی تفسیر ”اللہ کا عرش پانی پر تھا“۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بندو! (میری راہ میں) خرچ کرو تو میں بھی تم پر خرچ کروں گا اور فرمایا، اللہ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے۔ رات اور دن مسلسل کے خرچ سے بھی اس میں کم نہیں ہوتا اور فرمایا تم نے دیکھا نہیں جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے، مسلسل خرچ کئے جا رہا ہے لیکن اس کے ہاتھ میں کوئی کمی نہیں ہوئی، اس کا عرش پانی پر تھا اور اس کے ہاتھ میں میزان عدل ہے جسے وہ جھکاتا اور اٹھاتا رہتا ہے۔ اعتراک‏ باب افتعال سے ہے عروته سے یعنی میں نے اس کو پکڑ پایا اسی سے ہے۔ يعروه مضارع کا صیغہ اور اعتراني آخذ بناصيتها‏ یعنی اس کی حکومت اور قبضہ قدرت میں ہیں۔ عنيد، عنود اور عاند سب کے معنی ایک ہی ہیں یعنی سرکش مخالف اور یہ جبار کی تاکید ہے۔ استعمرکم‏ تم کو بسایا، آباد کیا۔ عرب لوگ کہتے ہیں أعمرته الدار فهى عمرى یعنی یہ گھر میں نے اس کو عمر بھر کے لیے دے ڈالا۔ نكرهم‏،أنكرهم اور استنکرهم سب کے ایک ہی معنی ہیں۔ یعنی ان کو پردیسی سمجھا۔ حميد، فعيل کے وزن پر ہے بہ معنی محمود میں سراہا گیا اور مجيد‏، ماجد‏.‏ کے معنی میں ہے (یعنی کرم کرنے والا) ۔ سجيل اور سجين دونوں کے معنی سخت اور بڑا کے ہیں۔ لام اور نون بہنیں ہیں (ایک دوسرے سے بدلی جاتی ہیں) ۔ تمیم بن مقبل شاعر کہتا ہے۔ بعضے پیدل دن دھاڑے خود پر ضرب لگاتے ہیں ایسی ضرب جس کی سختی کے لیے بڑے بڑے پہلوان اپنے شاگردوں کو وصیت کیا کرتے ہیں۔
آیت کی تفسیر اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو ( بھیجا )
وإلى مدين یعنی مدین والوں کی طرف کیونکہ مدین ایک شہر کا نام ہے جسے دوسری جگہ فرمایا واسأل القرية یعنی گاؤں والوں سے پوچھ۔ واسأل العير یعنی قافلہ والوں سے پوچھ۔ وراء کم ظهريا یعنی پس پشت ڈال دیا اس کی طرف التفات نہ کیا۔ جب کوئی کسی کا مقصد پورا نہ کرے تو عرب لوگ کہتے ہیں ظهرت بحاجتي اور جعلتني ظهريا اس جگہ ظهري کا معنی وہ جانور یا برتن ہے جس کو تو اپنے کام کے لیے ساتھ رکھے۔ أراذلنا ہمارے میں سے کمینے لوگ۔ إجرام، أجرمت کا مصدر ہے یا جرمت ثلاثى مجرد۔ فلك اور فلك جمع اور مفرد دونوں کے لیے آتا ہے۔ ایک کشتی اور کئی کشتیوں کو بھی کہتے ہیں۔ مجراها کشتی کا چلنا یہ أجريت کا مصدر ہے۔ اسی طرح مرساها، أرسيت کا مصدر ہے یعنی میں نے کشتی تھما لی (لنگر کردیا) بعضوں نے مرساها بفتح میم پڑھا ہے رست سے۔ اسی طرح مجراها بھی جرت سے ہے۔ بعضوں نے مجريها، مرسيها یعنی اللہ اس کو چلانے والا ہے اور وہی اس کا تھمانے والا ہے یہ معنوں میں مفعول کے ہیں۔ راسيات کے معنی جمی ہوئی کے ہیں۔
Narrated Abu Hurairah (RA) : Allahs Apostle ﷺ said, "Allah said, Spend (O man), and I shall spend on you." He also said, "Allahs Hand is full, and (its fullness) is not affected by the continuous spending night and day." He also said, "Do you see what He has spent since He created the Heavens and the Earth? Nevertheless, what is in His Hand is not decreased, and His Throne was over the water; and in His Hand there is the balance (of justice) whereby He raises and lowers (people)."
Top