صحيح البخاری - انبیاء علیہم السلام کا بیان - حدیث نمبر 3505
حدیث نمبر: 3505
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، ‏‏‏‏‏‏قَال:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبُو الْأَسْوَدِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ أَحَبَّ الْبَشَرِ إِلَى عَائِشَةَ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَكَانَ أَبَرَّ النَّاسِ بِهَا وَكَانَتْ لَا تُمْسِكُ شَيْئًا مِمَّا جَاءَهَا مِنْ رِزْقِ اللَّهِ إِلَّا تَصَدَّقَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ:‏‏‏‏ يَنْبَغِي أَنْ يُؤْخَذَ عَلَى يَدَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ أَيُؤْخَذُ عَلَى يَدَيَّ عَلَيَّ نَذْرٌ إِنْ كَلَّمْتُهُ فَاسْتَشْفَعَ إِلَيْهَا بِرِجَالٍ مِنْ قُرَيْشٍ وَبِأَخْوَالِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً فَامْتَنَعَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ:‏‏‏‏ الزُّهْرِيُّونَ أَخْوَالُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ بْنِ عَبْدِ يَغُوثَ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمِسْوَرُ بْنُ مَخْرَمَةَ إِذَا اسْتَأْذَنَّا فَاقْتَحِمْ الْحِجَابَ فَفَعَلَ فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا بِعَشْرِ رِقَابٍ فَأَعْتَقَتْهُمْ ثُمَّ لَمْ تَزَلْ تُعْتِقُهُمْ حَتَّى بَلَغَتْ أَرْبَعِينَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ وَدِدْتُ أَنِّي جَعَلْتُ حِينَ حَلَفْتُ عَمَلًا أَعْمَلُهُ فَأَفْرُغُ مِنْهُ.
باب: قریش کی فضیلت کا بیان۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے، کہا کہ مجھ سے ابوالاسود نے، ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ نبی کریم اور ابوبکر ؓ کے بعد عبداللہ بن زبیر ؓ سے عائشہ ؓ کو سب سے زیادہ محبت تھی۔ عائشہ ؓ کی عادت تھی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو رزق بھی ان کو ملتا وہ اسے صدقہ کردیا کرتی تھیں۔ عبداللہ بن زبیر ؓ نے (کسی سے) کہا ام المؤمنین کو اس سے روکنا چاہیے (جب عائشہ ؓ کو ان کی بات پہنچی ) تو انہوں نے کہا: کیا اب میرے ہاتھوں کو روکا جائے گا، اب اگر میں نے عبداللہ سے بات کی تو مجھ پر نذر واجب ہے۔ عبداللہ بن زبیر ؓ نے (عائشہ ؓ کو راضی کرنے کے لیے) قریش کے چند لوگوں اور خاص طور سے رسول اللہ کے نانہالی رشتہ داروں (بنو زہرہ) کو ان کی خدمت میں معافی کی سفارش کے لیے بھیجا لیکن عائشہ ؓ پھر بھی نہ مانیں۔ اس پر بنو زہرہ نے جو رسول اللہ کے ماموں ہوتے تھے اور ان میں عبدالرحمٰن بن اسود بن عبدیغوث اور مسور بن مخرمہ ؓ بھی تھے، عبداللہ بن زبیر ؓ سے کہا کہ جب ہم ان کی اجازت سے وہاں جا بیٹھیں تو تم ایک دفعہ آن کر پردہ میں گھس جاؤ۔ چناچہ انہوں نے ایسا ہی کیا (جب عائشہ ؓ خوش ہوگئیں تو) انہوں نے ان کی خدمت میں دس غلام (آزاد کرانے کے لیے بطور کفارہ قسم ) بھیجے اور ام المؤمنین نے انہیں آزاد کردیا۔ پھر آپ برابر غلام آزاد کرتی رہیں۔ یہاں تک کہ چالیس غلام آزاد کردیئے پھر انہوں نے کہا کاش میں نے جس وقت قسم کھائی تھی (منت مانی تھی) تو میں کوئی خاص چیز بیان کردیتی جس کو کر کے میں فارغ ہوجاتی۔
Narrated Urwa bin Az-Zubair (RA): Abdullah bin Az-Zubair was the most beloved person to Aisha (RA) excluding the Prophet ﷺ and Abu Bakr, and he in his turn, was the most devoted to her, Aisha (RA) used not to withhold the money given to her by Allah, but she used to spend it in charity. (Abdullah) bin AzZubair said, " Aisha (RA) should be stopped from doing so." (When Aisha (RA) heard this), she said protestingly, "Shall I be stopped from doing so? I vow that I will never talk to Abdullah bin Az-Zubair." On that, Ibn Az-Zubair asked some people from Quraish and particularly the two uncles of Allahs Apostle ﷺ to intercede with her, but she refused (to talk to him). Az-Zuhriyun, the uncles of the Prophet, including Abdur-Rahman bin Al-Aswad bin Abd Yaghuth and Al-Miswar bin Makhrama said to him, "When we ask for the permission to visit her, enter her house along with us (without taking her leave)." He did accordingly (and she accepted their intercession). He sent her ten slaves whom she manumitted as an expiation for (not keeping) her vow. Aisha (RA) manumitted more slaves for the same purpose till she manumitted forty slaves. She said, "I wish I had specified what I would have done in case of not fulfilling my vow when I made the vow, so that I might have done it easily."
Top