صحيح البخاری - انبیاء علیہم السلام کا بیان - حدیث نمبر 3389
حدیث نمبر: 3389
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُقَيْلٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَرَأَيْتِ قَوْلَهُ حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا سورة يوسف آية 110 أَوْ كُذِبُوا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ بَلْ كَذَّبَهُمْ قَوْمُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ لَقَدِ اسْتَيْقَنُوا أَنَّ قَوْمَهُمْ كَذَّبُوهُمْ وَمَا هُوَ بِالظَّنِّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ يَا عُرَيَّةُ لَقَدِ اسْتَيْقَنُوا بِذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ فَلَعَلَّهَا أَوْ كُذِبُوا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ مَعَاذَ اللَّهِ لَمْ تَكُنِ الرُّسُلُ تَظُنُّ ذَلِكَ بِرَبِّهَا وَأَمَّا هَذِهِ الْآيَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ هُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ الَّذِينَ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَصَدَّقُوهُمْ وَطَالَ عَلَيْهِمُ الْبَلَاءُ وَاسْتَأْخَرَ عَنْهُمُ النَّصْرُ حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَتْ مِمَّنْ كَذَّبَهُمْ مِنْ قَوْمِهِمْ وَظَنُّوا أَنَّ أَتْبَاعَهُمْ كَذَّبُوهُمْ جَاءَهُمْ نَصْرُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ اسْتَيْأَسُوا سورة يوسف آية 80 افْتَعَلُوا مِنْ يَئِسْتُ مِنْهُ سورة يوسف آية 80مِنْ يُوسُفَ وَلا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ سورة يوسف آية 87 مَعْنَاهُ الرَّجَاءُ.
باب: (یوسف علیہ السلام کا بیان) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”بیشک یوسف اور ان کے بھائیوں کے واقعات میں پوچھنے والوں کیلئے قدرت کی بہت سی نشانیاں ہیں“۔
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ‘ ان سے عقیل نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ کہا کہ مجھے عروہ نے خبر دی کہ انہوں نے نبی کریم کی زوجہ مطہرہ عائشہ ؓ سے آیت کے متعلق پوچھا حتى إذا استيأس الرسل وظنوا أنهم قد کذبوا‏ (تشدید کے ساتھ) ہے یا کذبوا‏ (بغیر تشدید کے) یعنی یہاں تک کہ جب انبیاء ناامید ہوگئے اور انہیں خیال گزرنے لگا کہ انہیں جھٹلا دیا گیا تو اللہ کی مدد پہنچی تو انہوں نے کہا کہ (یہ تشدید کے ساتھ ہے اور مطلب یہ ہے کہ) ان کی قوم نے انہیں جھٹلایا تھا۔ میں نے عرض کیا کہ پھر معنی کیسے بنیں گے ‘ پیغمبروں کو یقین تھا ہی کہ ان کی قوم انہیں جھٹلا رہی ہے۔ پھر قرآن میں لفظ ظن‏.‏ گمان اور خیال کے معنی میں استعمال کیوں کیا گیا؟ عائشہ ؓ نے کہا: اے چھوٹے سے عروہ! بیشک ان کو تو یقین تھا میں نے کہا تو شاید اس آیت میں بغیر تشدید کے کذبوا‏ ہوگا یعنی پیغمبر یہ سمجھے کہ اللہ نے جو ان کی مدد کا وعدہ کیا تھا وہ غلط تھا۔ عائشہ ؓ نے فرمایا: معاذاللہ! انبیاء اپنے رب کے ساتھ بھلا ایسا گمان کرسکتے ہیں۔ عائشہ ؓ نے کہا مراد یہ ہے کہ پیغمبروں کے تابعدار لوگ جو اپنے مالک پر ایمان لائے تھے اور پیغمبروں کی تصدیق کی تھی ان پر جب مدت تک اللہ کی آزمائش رہی اور مدد آنے میں دیر ہوئی اور پیغمبر لوگ اپنی قوم کے جھٹلانے والوں سے ناامید ہوگئے (سمجھے کہ اب وہ ایمان نہیں لائیں گے) اور انہوں نے یہ گمان کیا کہ جو لوگ ان کے تابعدار بنے ہیں وہ بھی ان کو جھوٹا سمجھنے لگیں گے ‘ اس وقت اللہ کی مدد آن پہنچی۔ ابوعبداللہ (امام بخاری (رح)) نے کہا کہ استيأسوا‏، افتعلوا کے وزن پر ہے جو يئست‏.‏ ‏منه‏ سے نکلا ہے۔ اى من يوسف‏.‏ (سورۃ یوسف کی آیت کا ایک جملہ ہے یعنی زلیخا یوسف (علیہ السلام) سے ناامید ہوگئی۔ ) لا تيأسوا من روح الله‏ ‏‏‏‏ (سورۃ یوسف: 87) یعنی اللہ سے امید رکھو ناامید نہ ہو۔
Narrated Urwa (RA): I asked Aisha (RA) the wife of the Prophet ﷺ about the meaning of the following Verse: -- "(Respite will be granted) Until when the apostles give up hope (of their people) and thought that they were denied (by their people)..............."(12.110) Aisha (RA) replied, "Really, their nations did not believe them." I said, "By Allah! They were definite that their nations treated them as liars and it was not a matter of suspecting." Aisha (RA) said, "O Uraiya (i.e. Urwa)! No doubt, they were quite sure about it." I said, "May the Verse be read in such a way as to mean that the apostles thought that Allah did not help them?" Aisha (RA) said, "Allah forbid! (Impossible) The Apostles did not suspect their Lord of such a thing. But this Verse is concerned with the Apostles followers who had faith in their Lord and believed in their apostles and their period of trials was long and Allahs Help was delayed till the apostles gave up hope for the conversion of the disbelievers amongst their nation and suspected that even their followers were shaken in their belief, Allahs Help then came to them." Narrated Ibn Umar (RA): The Prophet ﷺ said, "The honorable, the son of the honorable, the son of the honorable, (was) Joseph, the son of Jacob! the son of Isaac, the son of Abraham."
Top