صحیح مسلم - زہد و تقوی کا بیان - حدیث نمبر 4497
حدیث نمبر: 5443
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْن أَبِي رَبِيعَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ بِالْمَدِينَةِ يَهُودِيٌّ وَكَانَ يُسْلِفُنِي فِي تَمْرِي إِلَى الْجِدَادِ وَكَانَتْ لِجَابِرٍ الْأَرْضُ الَّتِي بِطَرِيقِ رُومَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَجَلَسَتْ فَخَلَا عَامًا، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَنِي الْيَهُودِيُّ عِنْدَ الْجَدَادِ وَلَمْ أَجُدَّ مِنْهَا شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏فَجَعَلْتُ أَسْتَنْظِرُهُ إِلَى قَابِلٍ، ‏‏‏‏‏‏فَيَأْبَى فَأُخْبِرَ بِذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لِأَصْحَابِهِ:‏‏‏‏ امْشُوا نَسْتَنْظِرْ لِجَابِرٍ مِنَ الْيَهُودِيِّ، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءُونِي فِي نَخْلِي فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَلِّمُ الْيَهُودِيَّ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ أَبَا الْقَاسِمِ:‏‏‏‏ لَا أُنْظِرُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا رَأَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ فَطَافَ فِي النَّخْلِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ جَاءَهُ فَكَلَّمَهُ فَأَبَى فَقُمْتُ فَجِئْتُ بِقَلِيلِ رُطَبٍ فَوَضَعْتُهُ بَيْنَ يَدَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَكَلَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ أَيْنَ عَرِيشُكَ يَا جَابِرُ ؟ فَأَخْبَرْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ افْرُشْ لِي فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏فَفَرَشْتُهُ فَدَخَلَ فَرَقَدَ ثُمَّ اسْتَيْقَظَ فَجِئْتُهُ بِقَبْضَةٍ أُخْرَى فَأَكَلَ مِنْهَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَامَ فَكَلَّمَ الْيَهُودِيَّ فَأَبَى عَلَيْهِ فَقَامَ فِي الرِّطَابِ فِي النَّخْلِ الثَّانِيَةَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ يَا جَابِرُ، ‏‏‏‏‏‏جُدَّ وَاقْضِ فَوَقَفَ فِي الْجَدَادِ فَجَدَدْتُ مِنْهَا مَا قَضَيْتُهُ وَفَضَلَ مِنْهُ فَخَرَجْتُ حَتَّى جِئْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَشَّرْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عُرُوشٌ وَعَرِيشٌ بِنَاءٌ. وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:‏‏‏‏ مَعْرُوشَاتٍ مَا يُعَرَّشُ مِنَ الْكُرُومِ وَغَيْرِ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏يُقَالُ:‏‏‏‏ عُرُوشُهَا أَبْنِيَتُهَا.
تر اور خشک کھجور کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول وھزی الیک بجذع النخلہ تساقط علیک رطبا جنیا اور محمد بن یوسف نے بواسطہ سفیان، منصور بن صفیہ، منصور کی ماں حضرت عائشہ ؓ سے روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ کی وفات سے پہلے ہم لوگ اسودین یعنی کھجور اور پانی سے شکم سیر ہوتے تھے
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوغسان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوحازم نے بیان کیا، ان سے ابراہیم بن عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن ابی ربیعہ نے اور ان سے جابر بن عبداللہ ؓ نے بیان کیا کہ مدینہ میں ایک یہودی تھا اور وہ مجھے قرض اس شرط پر دیا کرتا تھا کہ میری کھجوریں تیار ہونے کے وقت لے لے گا۔ جابر ؓ کی ایک زمین بئررومہ کے راستہ میں تھی۔ ایک سال کھجور کے باغ میں پھل نہیں آئے۔ پھل چنے جانے کا جب وقت آیا تو وہ یہودی میرے پاس آیا لیکن میں نے تو باغ سے کچھ بھی نہیں توڑا تھا۔ اس لیے میں آئندہ سال کے لیے مہلت مانگنے لگا لیکن اس نے مہلت دینے سے انکار کیا۔ اس کی خبر جب رسول اللہ کو دی گئی تو آپ نے اپنے صحابہ سے فرمایا کہ چلو، یہودی سے جابر ؓ کے لیے ہم مہلت مانگیں گے۔ چناچہ یہ سب میرے باغ میں تشریف لائے۔ نبی کریم اس یہودی سے گفتگو فرماتے رہے لیکن وہ یہی کہتا رہا کہ ابوالقاسم میں مہلت نہیں دے سکتا۔ جب نبی کریم نے یہ دیکھا تو آپ کھڑے ہوگئے اور کھجور کے باغ میں چاروں طرف پھرے پھر تشریف لائے اور اس سے گفتگو کی لیکن اس نے اب بھی انکار کیا پھر میں کھڑا ہوا اور تھوڑی سی تازہ کھجور لا کر نبی کریم کے سامنے رکھی۔ نبی کریم نے ان کو تناول فرمایا پھر فرمایا جابر! تمہاری جھونپڑی کہاں ہے؟ میں نے آپ کو بتایا تو آپ نے فرمایا کہ اس میں میرے لیے کچھ فرش بچھا دو۔ میں نے بچھا دیا تو آپ داخل ہوئے اور آرام فرمایا پھر بیدار ہوئے تو میں ایک مٹھی اور کھجور لایا۔ نبی کریم نے اس میں سے بھی تناول فرمایا پھر آپ کھڑے ہوئے اور یہودی سے گفتگو فرمائی۔ اس نے اب بھی انکار کیا۔ نبی کریم دوبارہ باغ میں کھڑے ہوئے پھر فرمایا کہ جابر! جاؤ اب پھل توڑو اور قرض ادا کر دو۔ آپ کھجوروں کے توڑے جانے کی جگہ کھڑے ہوگئے اور میں نے باغ میں سے اتنی کھجوریں توڑ لیں جن سے میں نے قرض ادا کردیا اور اس میں سے کھجوریں بچ بھی گئی پھر میں وہاں سے نکلا اور نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ خوشخبری سنائی تو نبی کریم نے فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ ابوعبداللہ امام بخاری (رح) نے کہا کہ اس حدیث میں جو عروش کا لفظ ہے عروش اور عريش عمارت کی چھت کو کہتے ہیں۔ ابن عباس ؓ نے کہا کہ (سورۃ الانعام میں لفظ) معروشات سے مراد انگور وغیرہ کی ٹٹیاں ہیں۔ دوسری آیت (سورۃ البقرہ) عروشها خاویة علی یعنی اپنی چھتوں پر گرے ہوئے۔
Top